کوئی تو مریم نواز کو آئین کا سبق پڑھا دے

پچھلے ہفتے مانسہرہ میں مردوں کے مجمعے کے سامنے مریم نواز مکمل طور پر پراعتماد اور ناراض دکھائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے کدو کے رنگ کا شلوار قمیض اور ہمیشہ کی طرح سر پر شیفون کا دوپٹہ ڈال رکھا تھا؛ لپ اسٹک بھی بالکل میچنگ کی تھی۔ انہیں مجمعے سے الگ کرنے کے لیے بیچ میں مسکراتی ہوئی نوجوان خواتین موجود تھیں جن کا لباس اپنی لیڈر سے کم نفیس تھا۔ اسٹیج اس قدر بھرا ہوا تھا کہ مریم کو کئی بار اپنا خطاب روک کر کہنا پڑا کہ اب اسٹیج پر اور جگہ نہیں ہے۔

مریم ایک مقصد کے ساتھ آئی تھیں، وہی جو وہ پورے ملک میں اپنے جلسوں کے دوران کہتی رہی ہیں، کہ ان کے والد کو نااہل کرنے والا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر جوش و جذبے سے بھرپور اور پارٹی ورکروں کی جانب سے چند لمحوں قبل ہی دیے گئے جھنڈوں کو لہراتے مجمعے سے چلاتے ہوئے کہا، "عوام کی عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا ہے۔”

جیسا کہ ہونا چاہیے، یہ بیان غلط ہے۔ اس بیان کی باریکیاں آئینِ پاکستان کو ایک کھلا چیلنج ہیں جو کہ عدلیہ کی بنیاد ہے اور ان کا دائرہ کار متعین کرتا ہے، عدالتی آزادی یقینی بناتا ہے اور نئے ججز کی پارلیمانی کمیٹی کے اشتراک سے تقرری کا طریقہ کار واضح کرتا ہے۔

یہ وہ اہم نقطہ ہے جو دوسروں کے ساتھ ساتھ بظاہر مریم نواز بھی بھول رہی ہیں۔

یہ کوئی حادثاتی غلطی نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی مہم جوئی ہے۔ یہ تاثر دینا کہ "عوام کی عدالت” ان کے جلسوں یا مسلم لیگ ن کے ووٹروں پر مشتمل ہے، مریم نواز اپنے والد کو فائدہ پہنچانے کی غرض میں ہیں۔ اگر پاکستان کی عدالتوں کی حیثیت عوامی امنگوں اور عدالتی فیصلوں کو دو الگ الگ چیزیں قرار دے کر ختم کی جا سکتی ہے، تو ان کے والد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے والا فیصلہ بھی بالکل اسی طرح ٹھکرایا جا سکتا ہے۔

اس غیر آئینی تناظر میں دیکھیں تو عدالتیں عوام کے خلاف ہیں اور قوانین ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا مجمع، یا اِس پارٹی یا اُس پارٹی کے ووٹر صحیح اور غلط، جرم یا بے گناہی کے بہتر منصف ہیں۔

ایسا نہیں ہے، اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ پاکستان ایک آئینی جمہوریت ہیں، اور ایک آئینی جمہورت میں عوامی نمائندوں کے مہرِ تصدیق ثبت شدہ آئین طاقت کو ضابطے میں رکھتے ہیں۔ آئین اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ووٹ حاصل کرنے والے اور قانون بنانے والے (بذریعہ پارلیمنٹ) ان لوگوں سے مختلف ہیں جو قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ کرتے ہیں (یعنی عدلیہ)۔

یہ فاصلہ یقینی بناتا ہے کہ جو لوگ ووٹ حاصل کرتے ہیں اور قوانین بناتے ہیں، وہ بھلے ہی وزیرِ اعظم ہوں مگر قانون سے بلند نہیں ہو سکتے۔ وجہ سادہ ہے: ایک آئینی جمہوریت کی قیادت صدر یا وزیرِ اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے، کسی بادشاہ کے ہاتھ میں نہیں جو صرف عوام کی حمایت کی وجہ سے کسی آئین کے بغیر حکومت میں آ جائے؛ وزرائے اعظم آئین کے تابع ہوتے ہیں۔

یہ ایک بہت ہی اہم تفریق ہے جو ان سیاسی بیان بازیوں میں گم ہو گئی ہے کہ فلاں رکنِ پارلیمنٹ یا فلاں وزیرِ اعظم کو شور مچاتے ہوئے جوشیلے مجمعے نے ‘بری’ کر دیا ہے۔ یہ صرف اس لیے اہم نہیں ہے کیوں کہ سابق وزرائے اعظم کے بچوں کو غیر آئینی اقدامات کے لیے لوگوں کو نہیں اکسانا چاہیے، بلکہ اس لیے بھی کہ کس طرح ایسے نظریات جمہوریت کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔

جمہوریت سے مطلق العنان حکمرانی کی طرف منتقلی کے ثبوتوں میں سے ایک جمہوری اداروں کا کمزور ہونا اور طاقت کا حکومت کے صرف ایک بازو میں مجتمع ہوجانا ہے۔ اگر پاکستان کی عدالتیں، جو کہ حقیقت میں عوام کی عدالتیں ہیں، اپاہج ہوجاتی ہیں، ان کے فیصلوں کو رد کر دیا جاتا ہے اور انہیں ٹھکرا دیا جاتا ہے تو ہمارے پاس ایک لولی لنگڑی جمہوریت بچے گی جسے اکثریت کے ظلم سے مختلف نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ایسے نظام میں قوانین کی کم ہی اہمیت ہوگی، اور طاقتور لوگ عوام کو چالاکی سے بے وقوف بنا کر لاانتہا اور بلا روک ٹوک حکومت کر سکتے ہیں۔ ہٹلر، اسٹالن، مسولینی اور دیگر فاشسٹ ڈکٹیٹروں نے بھی یہی کیا جب انہوں نے اقلیتوں کی حفاظت کی آئینی شقیں ختم کر دی تھیں۔

امریکا میں 2016 کے انتخابات سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں ایک پاکستانی امریکی وکیل خضر خان اسٹیج پر آئے اور انہوں نے اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی آئین کی کاپی پیش کی۔ ایک مسلمان امریکی کے طور پر وہ اپنے ہونے والے صدر کو یاد دلانا چاہتے تھے کہ جمہوریت کے کئی حصے ہیں جن میں سے ایک آئین کی عزت بھی ہے، جس کے مطابق قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ یہ ایک نہایت مسحور کن اور یادگار لمحہ تھا۔

پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے: کسی بہادر پاکستانی کو کھڑے ہو کر مریم نواز کو آئین کی کاپی پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود پڑھ سکیں کہ پاکستان کی عدالتوں کو پاکستان کے قوانین کے نفاذ کے لیے کیوں اور کیسے بنایا گیا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ انصاف پاکستان میں ایک نہایت نایاب چیز ہے۔ وکلائے استغاثہ غائب ہوجاتے ہیں، ججوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے بچوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، اور جب وہ طاقتوروں کو چیلنج کرتے ہیں تو ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

جب صحیح کام کیا جائے گا، خفیہ طاقتوں کو قابلِ احتساب ٹھہرایا جائے گا، جب سزائیں دی جائیں گی، تو ہی پاکستانی جمہوریت مضبوط ہوگی۔

سب پاکستانی یہ کر سکتے ہیں اور اس کے کرنے کا نسخہ یہ ہے: جب بھی پاکستان میں ‘عوام کی عدالت’ کا لفظ کہا جائے، تو لوگوں کو آئین کے پہلے باب کے ساتویں حصے کو دیکھنا چاہیے۔ وہاں انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی عوام کی عدالتیں موجود ہیں۔

انہیں معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان کی عدالتیں کسی سیاستدان کو بری کرنے کے لیے نہیں بلکہ پاکستانی جمہوریت کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے