مرگِ وقار ہے تخت کشمیر کا

کالم |

احباب کے ساتھ جب بھی کشمیر کے ایوانِ اقتدار پر بات ہوتی ہے تو منہ سے برجستہ ایک انگریزی کلمہ خارج ہوتا ہے:

Kashmir crown is the graveyard of reputations

یعنی کشمیر کا تخت درحقیقت وقاروں کو مقبرہ ہے۔ جو جو جب جب اس تخت پر براجمان ہوا اپنے وقار کی نیا ڈبو کر ہی بیٹھا۔شیخ عبداللہ نے تخت سنبھالا تو صرف چھہ بہاروں کے بعد وہ ’’غدار‘‘ قرار پائے، معزول کئے گئے، پابند سلاسل ہوئے۔رہا ہوئے تو انہیں لگا کہ وقت کا حادثہ تھا ٹل گیا، اقتدار کے بحرزخار میں ایک اور ڈبکی مارنے کے لئے مزید ہلکے ہوئے، وزارت عظمیٰ کی بلی چڑھادی اور وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالی۔ تخت نشین ہوتے ہی نوجوانوں کے اندر انتقام کا آتش فشاں بھڑکا، سیاسی تجربات ہوئے اور پھر بندوق۔ شیخ صاحب کے بعض فدوی تو یہاں تک کہتے ہیں شیرکشمیر زندہ ہوتے تو عوام سے کہتے کہ رُوس کے کمیونسٹ ، خدابیزار اور ملحد میخائیل کلاشنکوف کیAK-47 ہمارے عقائد کے خلاف ہے ، قائد کی یہ بات سنتے ہی لوگ بارڈر کراس نہ کرتے ۔لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شیخ نے اپنے ضمیر کا خون کردیا اور اسی ضمیر کی لاش پر نیا کشمیر تعمیر کرنا چاہا، مگر اس’’خودکشی‘‘ نے کشمیر کو ہی مقتل بنا ڈالا۔ مختصر کہیے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ شیخ ہی اُس سب کا ذمہ دار ہے جو کچھ 1989 میں شروع ہوا اور اب بھی جاری ہے۔ غر ض تختِ کشمیرپر بیٹھنے سے شیخ جیسے قدآور قائدبھی نہ زندگی میں پھبے، نہ موت کے بعد۔

پھر اُن کے صاحبزادے فاروق عبداللہ نے تخت سنبھالا۔ دل پھینک شہزادے کے لڑکپن نے قوم کو کئی سال تک محظوظ و محسور تو کردیا، لیکن خود شہزادے کا کیا حال ہوا۔اقتدار کے دوسرے بر س د لی نے منہ پھیر لیا اوراُن کے بہنوئی نے ان کا تختہ اُلٹ دیا۔ پھر صلح ہوئی، راجیو۔فاروق ایکارڈ ہوا، لیکن جلد ہی فاروق کو تخت و تاج چھوڑ کرویسے ہی فرار ہونا پڑا جیسے مہاراجہ ہری سنگھ فرار ہوئے تھے۔مطلب تخت پر براجمان ہوتے ہی بندہ بھگوڑا بن گیا۔سات برس بعد لوٹے تو یہاں دشمنوں نے ٹاسک فورس اور کوکہ پرے کی اخوان کا نرماتا قرار دیا۔ اقتدار بھی،دبدبہ بھی، تشہیر بھی، نام بھی، لیکن وقار ، وہ خاک ہوچکا تھا۔

تشدد، ظلم و زیادتی، کرپشن اور بھی بہت کچھ۔ جیسے تیسے فاروق کے چھہ سال نکل گئے۔ لیکن ان سے اٹانومی کا نام لینے کی چُوک ہوگئی تھی۔ان کا متبادل عرصہ سے گھات میں تھا۔

بھارت کے وزیرداخلہ رہ چکے مفتی محمد سعید سیاسی منظر پر چھاگئے اور ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی ایک آتشیں سیاستدان کے طور اُبھرنے لگیں۔ آرپار ماحول بھی مناسب میسر آیا اور مفتی ماڈل ہِٹ ہوگیا۔ لوگ الیکشن پر یقین کرنے لگے، نوجوان سیاسی گروہوں کی طرف رجوع کرنے لگے اور پی ڈی پی حوصلہ ایسا پایا کہ پورے جنوب ایشیاکو اپنا سیاسی ایجنڈا قرار دینے لگی۔مفتی کا اقتدار پہلی مرتبہ کسی حد تک عوامی مقبولیت سے عبارت تھا۔لیکن جب دوسری بار کرسی سنبھالی تو حالات نے ایسی کروٹ لی کہ مفتی سعید جیسا ہیوی ویٹ سیاست دان بھی تخت کشمیر پر بیٹھ کر اپنے وقار کو نہ بچا سکا۔ آرایس ایس کے ساتھ اقتدار کی شراکت کو انہوں نے قطبین کا اتحاد توکہہ دیا، لیکن جو کچھ تب سے کشمیر میں ہورہا ہے اس نے پی ڈی پی اور مفتی برانڈ کے وقار پر منوں مٹی ڈال دی ہے۔

مفتی خانوادے کی اُچھال سے قبل شیخ خانوادے کے چشم و چراغ عمرعبداللہ اپنا شفاف ماضی لے کر تخت کشمیر پر بٹھائے گئے تو ان کی پشت پر کشت و خون کی ہولناک کہانیاں رقم ہوگئیں۔اٹانومی تو بحال نہ کرپائے ، اُلٹا شوپیان ریپ و قتل کیس، یوسف قتل کیس اور 2010کی قہرسامانیوں نے اُن کی سیاسی اننگ کا عنوان لکھ دیا۔درمیان میں غلام نبی آزاد کو بھی تخت کشمیر پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ بھارت کی وفاقی سیاست میں وہ کبھی کسی نزاع کا شکار نہیں ہوئے تھے، لیکن کشمیر کی زمام اقتدار سنبھالتے ہی انہیں یہاں کی سیاست کے سُرتال سمجھ آگئے۔ان کا دور ِاقتدار بعض کے نزدیک انتظامیہ کی جوابدہی اور تعمیر وترقی میں قدرے شفافیت سے عبارت رہا، لیکن 2008میں امرناتھ زمین تنازعہ کی وجہ سے جو طوفان برپا ہوا ور اس کے تھپیڑوں نے جو احتجاجی لہر پیدا کردی کشمیر اب بھی اس کی گرفت میں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہے جسکی وجہ سے تختِ کشمیر مرگ وقار کا محرک بن چکا ہے۔بعض حلقے کہتے ہیں کہ کشمیر کے سیاسی اقتدار کو داغدار بنائے رکھنا دلی کی مجبوری ہے؟ ان حلقوں کا ماننا ہے کہ مرحوم شیخ عبداللہ اور مرحوم مفتی سیدسے لے کر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی تک سب کے بارے میں دلی میں یہی رائے رہی ہے کہ’’ رسی لمبی چھوڑدو ،مگر باندھے رکھو!‘‘۔ لیکن حساس سماجی حلقوں کا خیال ہے کہ تخت کشمیر کو مرعات اور مفادات سے اس قدر لبھاونا بنا دیا گیا ہے کہ پرندے پنجرے میں گھسنے کے لئے پھڑپھڑاتے رہتے ہیں، بلکہ خود کی تاج پوشی کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔حرص ِاقتدار اِن پرندوں کو خونخوار درندوں میں تبدیل کررہا ہے، اور ہر دور میں نئے نئے شاہین تاج پوشی کے بعد کرگس بنتے جارہے ہیں۔اس طرح یہاں کی سیاست اور سیاسی ادارے بے وقعت اور وقار کا قبرستان بنتے جارہے ہیں۔ان باتوں کا بلند بانگ رونا رویا جاتا ہے کہ ’’ہمیں کشمیر کی دلی میں نمائندگی کرنی ہے، دلی کی نمائندگی کشمیر میں نہیں کرنی‘‘ ، لیکن جب اقتدار کا پہلے ہی سرمنڈن کیا گیا ہو تو پھر کہنا پڑتا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔

ہمارے یہاں کی بانجھ سیاست اور خصی کی گئی جمہوریت کے بطن سے جہاں ایک طرف شرافت کے لباس میں چور، ڈاکو اور لٹیرے پیدا ہورہے ، وہیں دوسری طرف اسی Depoliticizationکا نتیجہ ہے کہ نوجوان کشمیر کی جدید تاریخ کا مقدمہ اپنے گرم گرم لہو سے رقم کررہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان چاہے یہ قضیہ ایک حتمی جنگ سے ختم کریں یا افہام و تفہیم سے، لیکن کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ داری تخت کشمیر پر بیٹھے یا اس پر نظریں جمائے منتظر سیاست کاروں ، ان کے بچولیوں اور اختیار ات کے دلالوں کی گردن پر رہے گی۔ کشمیرکو بے سیاست کرنے میں دلی یا اسلام آباد کے ساتھ ساتھ اُس رویے کا بھی کلیدی کردار ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ رویہ یہی ہے کہ جوں کی توں صورتحال کے بیچ سب لوگ قومی ذمہ داریوں سے فارغ ہیں، لہذا جو وٹیا سو کھٹیا کے مصداق پہلی ترجیح تخت کشمیر پر قبضہ یا اس تک رسائی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ حرص و طمع اس قدر خمارآلود ہے کہ اس دوڑ میں مصروف لوگ بھول جاتے ہیں کہ تخت کشمیر درحقیقت مرگِ وقار ہے۔ لیکن وقار کا کیا ہے، جس کے پاس پاور ہے اس کی جئے کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اجتماعی شعور بالغ ہوجائے تواقتدار کے حریص بالغ ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔

بشکریہ: نوائے جہلم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے