شہباز شریف کا امتحان

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور بزرگ سیاستدان سردار عطاء اللہ مینگل نے بہت سادہ سا سوال کیا تھا لیکن میرے پاس ان کے اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہ تھا۔ انہوں نے پوچھا جن لوگوں نے پاکستان سے بہت فائدے حاصل کئے وہ لوگ پاکستان کو کیوں کمزور کررہے ہیں؟ کچھ دن پہلے سردار عطاء اللہ مینگل کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ میں ان کی خیریت معلوم کرنے کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا تھا۔ان کے دل پر لگنے والے زخموں کی داستان بہت لمبی ہے۔ میں تو ان کا درد بانٹنے کی کوشش میں تھا لیکن وہ مجھے پاکستان کو زخم لگانے والی حکمران اشرافیہ کی ناشکری کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ مینگل صاحب پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد صرف نو ماہ تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ نو ماہ کے بعد ان کی حکومت برطرف کردی گئی، سپریم کورٹ کے ذریعہ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی لگادی گئی اور کچھ عرصہ کے بعد کراچی میں ان کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔

کئی سال تک ان کا بیٹا لاپتہ رہا ہے اور آخر کار ذوالفقار علی بھٹو کی جیل میں لکھی گئی کتاب’’افواہ ا ور حقیقت‘‘ کے ذریعہ پتہ چلا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کو قتل کرکے لاش کسی نامعلوم مقام پر دفنا دی گئی تھی۔ بھٹو وزیر اعظم تھے، انہوں نے آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے کہا کہ کم از کم ایک باپ کو اس کے بیٹے کی لاش تو دے دو۔ جنرل ٹکا خان نے جواب میں کہا کہ یہ سب جنرل ضیاء الحق کا کیا دھرا ہے کیونکہ وہ فوج کے نئے سربراہ نامزد ہوچکے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے آج تک کسی پاکستانی عدالت سے انصاف نہیں مانگا۔ میں ان کی عیادت کے بعد واپس آرہا تھا تو خبر ملی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ایک رائٹ ہینڈ مین اور ایل ڈی اے کے سابق سربراہ احد چیمہ کی گرفتاری پر پنجاب کی بیوروکریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر ایسی کوشش بلوچستان، سندھ یا خیبر پختونخوا کے بیوروکریٹ کرتے تو پنجاب کی بیوروکریسی کا کیا ردعمل ہوتا؟

کچھ دن پہلے عوامی نیشنل پارٹی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے صوابی میں سینیٹ کے ان ارکان کے اعزاز میں ایک الوداعی ظہرانے کا اہتمام کیا جن کی مدت ختم ہونے والی ہے۔ اس ظہرانے میں خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے کئی سینیٹرز نے مجھے بار بار پوچھا کہ جس قسم کا لب و لہجہ اور زبان نواز شریف اور ان کی پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے سپریم کورٹ کے بارے میں اختیار کر رکھی ہے اگر یہ زبان ہم استعمال کرتے تو کیا ہوتا؟ میں نے بار بار کہا کہ سپریم کورٹ نے طلال چودھری اور دانیال عزیز کو توہین عدالت کا نوٹس دے دیا ہے لیکن مجھے بار بار کہا گیا کہ مسلم لیگ(ن) والوں کو صرف توہین عدالت کے نوٹس ملے ہیں اور ہوسکتا ہے توہین عدالت کی سزا بھی مل جائے لیکن اگر ایسی گستاخیاں ہم کرتے تو ہمارے ساتھ آپ لوگ غداروں والا سلوک کرتے۔

آپ میڈیا پر ہمیں صبح و شام برا بھلا کہتے اور ہمیں انڈین ایجنٹ قرار دے ڈالتے۔ یہاں موجود کئی سینیٹرز سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں پر تنقید بھی کررہے تھے لیکن ان کا خیال تھا کہ عدالتی فیصلوں پر تنقید اور ججوں پر الزامات لگانا دو مختلف چیزیں ہیں، بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر کلثوم پروین بھی یہاں موجود تھیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کا دفاع کرنے کے بجائے اپنا دفاع کیا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجوان کے اتحادی ہیں لیکن کلثوم پروین صاحبہ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر الزام لگادیا کہ حاصل بزنجو مجھے ان کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ میں نے حاصل بزنجو پر لگنے والے اس الزام کی تردید کی لیکن حالات انتہائی ناسازگار ہوگئے لہٰذا میں حاصل بزنجو کو اکیلا چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگیا۔

آج کل مسلم لیگ(ن) والوں کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ وہ دن رات خود ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت ایک طرف ریاستی اداروں پر تنقید کے ذریعہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کی کوششوں میں ہے تو دوسری طرف انہی اداروں کے ساتھ بیک ڈور چینلز کے ذریعہ رابطے بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعہ پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد شہباز شریف کو آگے لایا جارہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ شہباز شریف اداروں سے محاذ آرائی کے خلاف ہیں لیکن جب آپ یہ سوال اٹھائیں گے کہ کیا نواز شریف کی طرف سے شہباز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے نامزد کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ دراصل ایک دھوکہ ہے اور وہ شہباز شریف کے ذریعے کسی ڈیل کی کوشش میں ہیں تو آپ کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا جائے گا۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کی گورننس دوسرے صوبوں کے مقابلے پر بہتر ہے لیکن شہباز شریف کے منظور نظر سرکاری افسران اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں؟ اگر شہباز شریف کی ناک کے نیچے ان کے اہم افسران احد چیمہ کی گرفتاری کے خلاف ہڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ شہباز شریف کی گورننس میں پہلے والی بات نہیں رہی؟ شہباز شریف عدلیہ کے ساتھ ہیں، فوج کے بھی ساتھ ہیں، نواز شریف کے بھی ساتھ ہیں اور احد چیمہ کے بھی ساتھ ہیں۔ یہ کون سی سیاست ہے؟

اگر احد چیمہ بےگناہ ہے تو پنجاب کے کچھ بیوروکریٹ اتنا شور کیوں مچارہے ہیں؟ پہلی دفعہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے کچھ ایسے فیصلے کئے ہیں جو پنجاب کے سیاستدانوں کو قبول نہیں۔ ان فیصلوں پر تنقید کی گنجائش یقیناً موجود ہے لیکن یاد رکھیں کہ جو لب و لہجہ اور رویہ پنجاب والوں نے اختیار کر رکھا ہے خدانخواستہ یہ رویہ دوسرے صوبوں کے سیاستدانوں نے اختیار کرنا شروع کردیا تو پھر شہباز شریف سے کچھ بھی نہ سنبھالا جائے گا۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کو مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت ملی، پیپلز پارٹی کو سندھ اور تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت ملی۔

بدقسمتی سے تینوں بڑی جماعتوں نے آپس میں اتنی محاذ آرائی کی کہ ان کے اچھے کام محاذ آرائی کی گردوغبار میں گم ہوگئے ہیں۔ احد چیمہ کی گرفتاری پر قلم چھوڑ ہڑتال کی کوشش کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف شہباز شریف کوئی کارروائی کریں گے یا نہیں؟

کارروائی ہوگی تو شہباز شریف کے بارے میں زیادہ سوالات کھڑے نہیں ہوں گے۔ کارروائی نہ ہوئی تو یہ تاثر عام ہوجائے گا کہ نواز شریف اور شہباز شریف اندر سے ایک ہیں لیکن عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے دونوں نےمختلف موقف اختیار کر رکھا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے