اقوامِ متحدہ کا شام میں 30 روز کی عارضی جنگ بندی کا مطالبہ

نیویارک: اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پورے شام میں 30 روز کے لیے عارضی جنگ بندی کرنے اور جنگ زدہ علاقے میں شدید بیمار اور زخمی افراد کو طبی امداد دینے کے لیے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کرلی گئی جس میں ’دیر کیے بغیر‘ جنگ زدہ علاقے میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ مارک لوکوک نے اس قرارداد کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ان الفاظ پر فوری طور پر عمل ہونا چاہیے اور اس دشمنی کو حقیقی طور پر ختم ہونا چاہیے اور حملے رک جانے چاہیں‘۔

یہ قرار داد کویت اور سوئیڈن کی جانب سے پیش کیس گئی تھی جس میں آخری لمحات میں ترمیم کی گئی جس کا مقصد روس کو مطمئن کرنا تھا جو 72 گھٹوں بعد جنگ بندی کے لیے آمادہ تھا۔

یہ کوشش کامیاب ہوگئی تاہم اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے روس کی جانب سے ووٹ دینے میں تاخیر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

خیال رہے کہ سوئیڈن، کویت سمیت دیگر ممالک شام میں بالخصوص شامی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے غوطہ میں جہاں ایک ہفتے کے دوران بمباری کے نتیجے میں 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں 150 سے زائد بچے شامل ہیں، میں فوری جنگ بندی پر زور دیا تھا۔

قبلِ ازیں اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری اینتونیو گورتریز نے بھی غوطہ کے علاقے میں فوری طور جنگ بندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 4 لاکھ افراد ’دنیا میں دوزخ‘ میں رہ رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بھی سیکیورٹی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد کو خوش آئند قرار دیا اور زور دیا کہ اسے فوری طور پر عملی جامع پہنایا جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ شام میں موجود تمام فریقین انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 30 روز کے لیے جنگ بندی کریں تاکہ ملک میں انسانوں کی فلاح کے لیے کام کیا جاسکے۔

اس موقع پر سیکیورٹی کونسل کے سربراہ اور اقوامِ متحدہ میں کویتی سفیر منصور العتیبہ کا کہنا تھا کہ اس جنگ بندی کے باوجود شام میں عوام کی پریشانیاں ختم نہیں ہوں گی تاہم یہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہوگا۔

خیال رہے کہ جب سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی ہے تب سے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل بھی تقسیم ہوگئی ہے جس میں ایک گروپ روس کے ساتھ ہے جو شامی صدر بشارالسد کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے جبکہ دوسرا گروپ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ہے جو شامی باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کی کوششیں ماند پڑی ہوئیں تھیں۔

امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ جب بھی سیکیورٹی کونسل نے روس کا انتطار کیا تب ہی مسائل میں اضافہ ہوا جبکہ ووٹنگ میں شامل ہونا ہر کسی کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ایران اور ترکی کا کہنا ہے اقوامِ متحدہ میں قرار داد کی منظور کے باوجود شامی فورسز نے دارالحکومت دمشق اور ملک کے شمالی علاقوں میں بمباری کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شام میں موجود باغیوں کا کہنا ہے کہ ان کی 25 فروری کو شامی فورسز کے ساتھ دمشق کے قریبی علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔

دوسری جانب وہاں پر موجود رضا کاروں اور شہریوں نے بتایا کہ شامی فورسز کے جہازوں نے مشرقی غوطہ میں بمباری کی۔

ایرانی جنرل محمد باقیری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ تہران اور دمشق کو اقوامِ متحدہ کی قرار داد کا احترام کرنا چاہیے۔

ادھر ترکی کے نائب وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد سے ترکی کے کرد جنگوؤں کے خلاف کارورائی پر فرق نہیں پڑے گا۔

جمہوریہ چیک کے حکام نے شامی کردوں کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک کو ترکی کی درخواست پر گرفتار کرلیا۔

رپورٹ کے مطابق ترک اور جمہوریہ چیک کے حکام نے بتایا کہ شامی کرد موومنٹ کے اہم رہنما صالح مسلم کو پراگ کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔

ترک حکام کا کہنا ہے کہ وہ صالح مسلم کی گرفتاری کے لیے پہلے سے ہی مصروف تھے تاہم اب ان کی حوالگی کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے جہاں وہ ترکی میں اپنے خلاف دہشت گردی کے جرائم کے الزامات کا سامنا کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے