جنرل قمرباجوہ کا جوابِ دعویٰ

جنرل قمر باجوہ نے اُس مقدمے کو رد کر دیا ہے جو چالیس سال پہلے جنرل ضیاالحق کی قیادت میں ریاست پاکستان نے پیش کیا اور جس کے لیے انہیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی مکمل تائید حاصل رہی۔

میونخ میں عالمی برادری کے سامنے، جنرل قمر باجوہ نے جس صراحت اور بے تکلفی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس سے یقیناً پاکستان کی اخلاقی ساکھ مستحکم ہوئی ہے۔ اس سے پوری طرح واضح ہوا کہ پاکستانی قیادت دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کا پوری طرح ادراک بھی رکھتی ہے۔ غلطی کا اعتراف انسان کی اخلاقی ساکھ کو مضبوط بناتا ہے۔ جنرل باجوہ نے ‘جہاد ازم‘ اور ‘خلافت‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘آج ہم وہی کچھ کاٹ رہے ہیں جو چالیس سال پہلے بویا گیا تھا‘۔ ‘ہم‘ میں پاکستان کے ساتھ وہ تمام مسلم اور غیر مسلم دنیا شامل ہے جو افغانستان میں اشتراکیت کے خلاف لڑتے ہوئے جہاد کے پاکیزہ تصور کے سوئے استعمال کی مرتکب ہوئی۔

میں نے اپنے کالموں میں بارہا یاددہانی کرائی ہے کہ 1979ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال ہمارے معاشرے میں جن سماجی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی گئی، ہم پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس سال افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوا۔ ہم نے اس مقدمے کے ساتھ یہ معرکہ لڑا کہ سوویت یونین کا راستہ اگر یہاں نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں میں پاکستان بھی اس کی زد میں ہو گا۔ اس باب میں دو آرا ہو سکتی ہیں‘ لیکن اس کے بعد تاریخی عمل جس طرح آگے بڑھا، اس نے پاکستان کے سماج کو برباد کر ڈالا۔
اس واقعے کے دو بڑے مضمرات تھے۔ ایک یہ کہ اس معرکے میں، امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا، اپنے اتحادی عالمِ اسلام کے ہمراہ، ہمارے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ یہ لوگ، ظاہر ہے کہ پاکستان کو سوویت یونین سے بچانے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وہ افغانستان کو ایک عالمی قوت کا قبرستان بنانا چاہتے تھے۔ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت خود کو اس عالمی ایجنڈے سے الگ نہ رکھ سکی اور اس کا حصہ بن گئی۔ دوسرا یہ کہ اس معرکے میں اسلام کے تصورِ جہاد کو استعمال کیا گیا اور ہم اسلام کے اس استحصال میں امریکہ کے دست و بازو بن گئے۔ یہ جہاد، ‘جہاد ازم‘ میں بدل گیا۔

اس سال کا دوسرا بڑا واقعہ ایرانی انقلاب تھا۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے اسے اسلامی انقلاب قرار دیتے ہوئے، آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور یوں پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم کو ایک نیا آہنگ ملا۔ جنرل قمر باجوہ کا تجزیہ بھی یہی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ان دو واقعات کو پاکستان کے لیے اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے اپنا کام نکالا اور الگ ہو گئی۔ ہم ابھی تک اس جہاد ازم کو بھگت رہے ہیں۔ ان کا نتیجۂ فکر یہ بھی ہے کہ 1979ء سے پہلے ہم سماجی سطح پر صرف مسلمان تھے۔ اس سال کے بعد ہم میں تقسیم ہو گئے۔ جنرل قمر باجوہ کا تجزیہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلفشار نے ہمیں اتنا متاثر نہیں کیا جتنا جہادِ افغانستان اور انقلابِ ایران نے کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:

"It was only then that we started learning that we were not only Muslims, but were Sunnis and Shias. It was also the time that we were drawn to conviction of fighting Soviet invasion and also challenging Communist Ideology”.

پاک فوج کے سپہ سالار کی طرف سے اتنی صراحت کے ساتھ یہ بات کہنا ان کی اخلاقی قوت کا اظہار ہے۔ یہ دراصل اس دعوے (Thesis) کا جواب (Anti Thesis) ہے جو جنرل ضیاالحق مرحوم اور ان کی اتحادی مذہبی قوتوں نے پیش کیا تھا۔ یہ قوتیں آج بھی اسی دعوے کو مانتی ہیں۔

جنرل قمر باجوہ کا یہ خطاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ انہوں نے اپنا یہ مقدمہ عالمی برادری کے سامنے پیش کیا۔ بہت اچھے اسلوب میں اس کی اخلاقی حس کو مخاطب کیا کہ ہم تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں‘ لیکن کیا امریکہ اور مغربی دنیا بھی اس پر آمادہ ہیں؟ کیا انہیں اس پر کوئی شرمندگی ہے کہ دنیا کو دہشت گردی کے حوالے کرنے میں ان کا اپنا حصہ بھی کم نہیں۔ تاہم، اس خطاب میں دو باتیں ایسی ہیں‘ جن پر میرا زاویہ نظر مختلف ہے۔ ایک واقعاتی ہے اور دوسری تجزیاتی۔

جنرل قمر باجوہ کاکہنا تھا کہ سوویت یونین سے لڑنے کے لیے ایک مغربی یونیورسٹی میں مدارس کا نصاب بنایا گیا۔ اس نصاب کے ذریعے نوجوان ذہنوں میں، جہاد کے تصور کو اس کے درست تناظر اور تفہیم کے بغیر، راسخ کیا گیا۔ اس کے تحت غیر ریاستی عناصر کو جہاد کا حق دیا گیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ایک امریکی یونیورسٹی میں جو نصاب ترتیب دیا گیا، وہ ان مدارس کے لیے تھا جو افغان مہاجرین کے کیمپوں میں قائم تھے۔ اس نصاب کا اصل ہدف افغان بچے تھے۔ پاکستانی مدارس میں کم از کم ملکی سطح پر ایسا کوئی نصاب نہیں پڑھا گیا۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ پاکستان کے علما نے غیر ریاستی عناصر کے اس حق کو تسلیم کیا کہ وہ جہاد کا اعلان کر سکتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے اپنے نوجوانوں کو افغانستان میں جہاد کے لیے بھیجا۔ یوں جہاد ‘جہادازم‘ میں بدل گیا۔

جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ‘جہاد ازم‘ تو ہے، خلافت کا تصور موجود نہیں ہے۔ میرا گمان ہے کہ جنرل صاحب کے تقریر نگار اردو کے اخبارات نہیں پڑھتے یا پاکستانی ٹی وی چینل نہیں دیکھتے۔ ہمارے ہاں ایسے کالم اور مضامین کثرت سے شائع ہوتے ہیں جن میں خلافت کا مقدمہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر ٹی وی چینلز پر مستقل پروگرام ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہر دوسرے دن جمہوریت کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہیں۔ جب قومی پریس میں بیانیے کی بحث جاری تھی تو ایک بڑے اردو اخبار میں ملک کی ایک معروف مذہبی شخصیت کا مضمون شائع ہوا‘ جس میں انہوں نے خلافت کو دینی اصطلاح اور خلیفہ کے تقرر کو دینی فریضہ بتایا۔

اس جوابی مقدمے کی تحسین کے ساتھ، میں یہ بھی کہوں گا کہ یہ بحث یہاں مکمل نہیں ہوئی۔ اگر ہم نے اصولاً یہ مان لیا ہے کہ ‘جہادازم‘ کے مروجہ تصور کا اسلام کے تصورِ جہاد سے کوئی تعلق نہیں اور قتال کے مفہوم میں جہاد کا اعلان ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر اس کے تمام مضمرات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

ہمارے ہاں کچھ گروہ وہ ہیں جو القاعدہ یا داعش کو رد کرتے ہیں لیکن پاکستانی شہریوں کے لیے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کو جائز کہتے ہیں۔ اس کے لیے ریاست کے اعلان کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کی وجہ سے عالمی برادری ہم پر پابندیاں لگانا چاہتی ہے‘ جس کا اظہار فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں ہو گیا ہے۔ ان گروہوں کے حوالے سے چین اور سعودی عرب نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب اگر ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ جہاد ریاست ہی کا حق ہے اور کوئی غیر ریاستی تنظیم اس کا اعلان نہیں کر سکتی تو پھر اس کا اطلاق ہر جگہ کرنا پڑے گا۔ ہم نے عالمی برادری کے خدشات کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

صدارتی آرڈیننس سے ہم نے ایسے گروہوں کے بارے میں ریاستی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم اس مقدمے کو ہمیں علمی اور فکری سطح پر بھی واضح کرنا ہو گا تاکہ دینی جذبے سے سرشار ہمارے مخلص نوجوان ماضی کی طرح کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ جن تنظیموں کے خلاف اقدام ہوا، وہ اس پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت امریکہ کی خوشنودی کے لیے سب کچھ کر رہی ہے۔ ان کو سمجھانا پڑے گا کہ یہ معاملہ حکومت کا نہیں، ریاست کا ہے۔ اگر ہم اس اصول سے اتفاق کر رہے ہیں کہ غیر ریاستی عناصر جہاد کے اعلان کا حق نہیں رکھتے تو پھر اس کے اطلاق میں امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ اس سے پیدا ہونے والا تضاد بنیادی مقدمے ہی کو کمزور کر دے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے