اُنگلی ، ہتھوڑا اور انگوٹھے۔۔۔!

2013کے عام انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں
کے درمیان لفظی جنگ کا آغاز ہوا ۔ ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے
اور اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہونے کا طعنہ بھی دیا ۔ اکثریتی جماعت مسلم لیگ
نواز بھی پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں دھاندلی کا رونا روتی رہی ۔
گویا سب جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے مگر
تحریک انصاف کے علاوہ باقی جماعتوں نے مصلحتِ وقت کے تحت انتخابی نتائج
کو قبول کیا اور سیاسی جوڑ توڑ کے بعد مسلم لیگ نواز نے میاں نواز شریف
صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا ۔

حکومت بنی تو تحریکِ انصاف نے جہاں خیبر پختونخواہ میں حکومت قائم کی
وہیں پنجاب میں حکومت مخالف تحریک کاآغاز کیا۔ اگست 2014 ؁ء میں انتخابی
نتائج کے خلاف دھرنا دیا جو دسمبر 2014 ؁ء تک جاری رہا ۔اس دھرنے کے
دوران ’’ایمپائر کی اُنگلی ‘‘ نے اہمیت حاصلی کی اور اس کا چرچہ ایوانوں
میں ہونے لگا۔ مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور
جمعیت علماء اسلام سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے خلاف ’’ایمپائر
کی اُنگلی ‘‘ کے کردار کو موضوعِ بحث بنایا جبکہ جمہوریت کو بچانے کاعزم
کیا ۔ تحریک انصاف کے ’ باغی ‘ راہنما جاوید ہاشمی اس دوران بغاوت کر گئے
کہ دھرنے کے پیچھے جنرل پاشا ودیگر عسکری راہنما ہیں ۔ بعدازاں سپریم
کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے انتخابی دھاندلی کے حوالے
سے تحقیقات کیں اور سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی جس میں ’’نظامِ انتخاب
میں کمزوری ‘‘ کو تسلیم کیا گیا مگر باقاعدہ دھاندلی کے امکان کو قریب
قریب مسترد کردیا کہ اس کے شواہد نہیں ملے ۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی کے 4حلقوں کے
انتخابی نتائج کے خلاف عدالت کی راہ لی ۔مختلف اوقات میں ان حلقوں میں
دوبارہ انتخابات ہوئے مگر عوام کا فیصلہ مسلم لیگ نواز کے ہی حق میں رہا
۔ ابھی یہ مسئلہ جاری تھا کہ’’ پانامہ لیکس ‘‘ کا معاملہ سامنے آیا اور
تحریکِ انصاف کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے موقع مل گیا ۔ تحریک انصاف
اس معاملے کو بھی عدالت میں لے گئی۔ بات ’’ ایمپائر کی انگلی ‘‘ سے عدل
کے ہتھوڑے تک آن پہنچی یہاں تک کہ اس ہتھوڑے نے وزارتِ عظمی کی کُرسی کے
کیل آہستہ آہستہ اکھاڑنے شروع کیے تاآنکہ اس منصب سے میاں نواز شریف کو
اٹھنا پڑا کہ یہ کُرسی ہتھوڑے کے مسلسل برسنے کے بعد ان کے قابل نہ رہی
تھی ۔ میاں صاحب وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکلے اور جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے
لاہور پہنچے ۔ راستے میں جگہ جگہ خطاب کیا جبکہ اس سفر میں ان کے لب پر
ووٹ کے تقدس کا ترانہ ، بھٹو کے عدالتی قتل کا نوحہ اور مجھے کیوں نکالا
کا سوال تھا ۔ باتیں درست تھیں مگر ووٹ کے تقدس کی پامالی اور جمہوری
حکومتوں کے خلاف غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے کا جرم میاں صاحب خود بھی
کرتے رہے ہیں ۔ عوام نے ان کے اجتماعات میں بڑی تعداد میں شرکت کی اور اب
لودھراں انتخاب میں بھاری کامیابی نے انہیں حوصلہ دیا ہے ۔ اس انتخاب کے
بعد شریف خاندان کے لب ولہجہ میں درشتی و زعم درآیا ہے کہ وہ ججوں،
جرنیلوں اور لاڈلوں کو خوب للکار رہے ہیں ۔ اس حلقہ میں کامیابی مِلی تو
بات ایمپائر کی اُنگلی اورعدل کے ہتھوڑے سے ہوتی ہوئی ’’عوام کے
انگوٹھے‘‘ تک آہی گئی ہے ۔( پارٹی صدارت ونا اہلی کی مدت کے حوالے سے بھی
سماعت جاری ہے جس میں غالب امکان تاحال یہی ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آئے
گا) مسلم لیگ نواز کے راہنما اب کہہ رہے ہیں کہ فیصلے ’’ عوام کے
انگوٹھے‘‘ کریں گے ایمپائر کی انگلی یا جج( عدالتی ہتھوڑے) نہیں ۔

2013 ؁ء کے انتخابات سے اب تک کی مُلکی سیاسی صورتحال نے ایک منظر نامہ
واضح کردیا ہے کہ 2018 ؁ء کے عام انتخابات’’ ایمپائر کی اُنگلی ‘‘ ،
’’عدل کے ہتھوڑے ‘‘ اور’’ عوام کے انگوٹھے ‘‘ کے درمیان ہونے ہیں ۔
مقابلہ سخت ہے تمام فریق بھرپور انداز میں تیار ہیں بس میدان سجنے کی دیر
ہے ۔ جمہوریت پسندطبقات یقیناََ ’’عوام کے انگوٹھے ‘‘ کے نظریے کو ہی
قبول کریں گے باقی سیاسی یتیم ایمپائر کی انگلی سے پکڑی چھتری تلے جمع
ہوں گے یا پھر عدل کے ہتھوڑے کو سیاسی قوتوں کے خلاف برسنے پراکسائیں گے

۔
اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ عام انتخابات شفاف ہوں ’’عوام کے انگوٹھے ‘‘
دھندلے نہ ہوں کہ پھر ان کی صفائی کے لیے دھرنا دینا پڑے یاعدالت سے
تصدیق کرانی پڑے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور عوام کے سامنے پیش
کرنا چاہیے اور بغیر کسی سہارے کے میدان میں اترنا چاہیے ۔ عدالت اور فوج
محض اس حد تک انتخابی عمل میں حصہ لیں جتنا آئین انہیں اجازت دیتا ہے
۔کسی جماعت یا گروہ کی حمایت اور انتخابی نتائج کوبدلنے کی کسی کوشش میں
شامل نہ ہوں ۔ شفاف انتخابات ہی ملک میں جمہوریت وترقی کے فروغ میں معاون
ہوں گے اور عوام کو بھی یہ اطمینان ہوگا کہ ان کا ووٹ واقعی مقدس ہے جس
کا احترام ان کی نمائدہ سیاسی جماعتیں و دیگر ادارے بھی کرتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے