موروثی سیاست ایک ناسور

ہر عاقل سمجھتا ہے کہ مریض کا علاج کرانے سے پہلے مرض کی تشخیص کرانا ضروری ہے – اگر مرض تشخیص کئے بغیر علاج کے لئے اقدامات کریں تو نہ فقط مریض بہبودی نہیں پاتا ہے بلکہ یہ کام حماقت کے زمرے میں آتا ہے- پاکستانی قوم بہت ساری بدبختیوں کا شکار ہے، 20 کروڑ سے ذیادہ تعداد پر مشتمل پاکستانی عوام اپنے حال اور مستقبل سے نالاں ہیں- 70 سال سے جس چیز نے پاکستانی قوم کی کمر توڑ رکھی ہے وہ ناانصافی ہے، جس کے سبب اس ملک میں امیر امیرتر اور غریب لوگ غریب تر ہوتے جارہے ہیں، کمزور طبقوں کا کوئی پرسان حال نہیں، اقلیتی گروہ کے حقوق پامال ہورہے ہیں،حکومتی کالے قانون غریب عوام کے ساتھ ہی مخصوص ہیں، بے شمار محب وطن بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے خاک وخون میں ابدی نیند سلانے والے خطرناک دہشتگردوں کو تو قومی اسمبلی میں جگہ ملی ہوئی ہے، لیکن ملک کے تعلیم یافتہ باصلاحیت جوان بے روزگار پھر رہے ہیں –

پاکستان اسلام کے نام پر اس لئے نہیں بنا تھا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ ناانصافی کے دلدل میں دہنسے رہے،بلکہ اسلام کے نام پر جداگانہ مملکت تشکیل دینے کا فلسفہ ہی یہ تھا کہ پاکستانی قوم کو انصاف ملے، پاکستان کے باسیوں کو اسلامی زرین قوانین کے زیر سایہ امن، محبت،اخوت اور دوستی کی فضا میں پرسکون خوش وخرم زندگی نصیب ہوجائے، لیکن وطن عزیز میں جمہوری نظام کی جگہ چند اشرافیہ خاندان کا خودساختہ کھوکھلا نظام حاکم رہنے کی وجہ سے آج تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا – یاد رکھیں جب تک پاکستانی معاشرے پر حاکم اس نا انصافی کے تناور درخت کی جڑیں تلاش کرکے نہیں کاٹیں گے بدبختی کے بادل چ?ٹ کر پاکستانی قوم کے لئے خوشحالی میسر آنا ممکن نہیں – کون نہیں جانتا کہ ناانصافی کا اصل سبب موروثی سیاست ہے – پاکستان میں انصاف پر مبنی نظام لانے کے لئے موروثی سیاست کا خاتمہ کرانا بہت ضروری ہے – 2018 کے انتخابات نذدیک ہیں- چنانچہ تمام سیاسی حلقوں میں انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ سیاسی مفادات سے وابستہ افراد متحرک ہوچکے ہیں- سیاست سے ناجائز فائدہ اٹھاکر جیبیں پر کرنے والے لٹیرے فعال ہوچکے ہیں- نااہل سیاستدانوں سے کرایہ لے کر غلط تبلیغیات کرنے والے ٹولے سرگرم عمل ہوچکے ہیں- ایسے میں ہر محب وطن پاکستانی کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار رہے اور ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لئے کردار ادا کرے –

البتہ اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری تعلیم یافتہ طبقوں کے کاندھے پر عائد ہوتی ہے- اہل علم خواہ کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں (خطیب مفکر، محقق، ٹیچر، امام جمعہ،صاحب قلم، سماجی شخصیات و… سب کو عوام بیداری کے لئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ضروری ہے- عوام میں شعور کی کمی کے سبب وہ بآسانی موروثی سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور بے بنیاد باتوں سے متاثر ہوکر اب تک نااہل افراد کو ووٹ دے کر ایوان بالا میں پہنچاتے آرہے ہیں- چنانچہ آج تک انہی نااہل لوگوں کے ہاتھوں عوام ہزاروں بدبختیاں، مشکلات اور سختیاں جھیل کر زندگی کے لمحات گزارنے پر مجبور ہیں- قومی سرمائے کو چند اشرافیہ خاندان اپنے باپ کی وراثت سمجھتے ہوئے اپنی عیاشی میں لٹارہے ہیں جب کہ غریب عوام دووقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں- غریب لوگوں کے پاس بیماری کے علاج معالجے کے لئے پیسے نہیں اور حکمرانوں کو معمولی کھانسی بھی ہوجائے تو سیدھا امریکہ برطانیہ اور کینڈا چلے جاتے ہیں- موروثی سیاست کے خاتمے اور پاکستانی عوام کی خوشحالی لازم وملزوم ہیں-

پاکستان قوم کو یہ جان لینا چاہئے کہ سالوں سال سے اقتدار پر براجمان رہ کر عوام کی جان اور مال کو بازیچہ اطفال بنا کر فقط اپنے پیٹ کی فکر مند رہنے والے نام نہاد نمائندوں کو ووٹ دینا ملک اور قوم کے ساتھ خیانت ہے اور خیانت کرنا گناہ کبیرہ ہے، جس کی سزا سنگین ہے – کوئی یہ نہ سوچے کہ میرا ایک ووٹ جسے بھی دوں گا اس سے کیافرق پڑتا ہے- یہ تصور بالکل غلط ہے -ممکن ہے آپ کا ووٹ کسی نااہل کے انتخاب کا سبب بنے- اسی طرح یہ تصور بھی درست نہیں کہ نااہل افراد کو ہم ووٹ دیں یا نہ دیں انہوں نے آگے آنا ہی ہیں- چونکہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھاندلی ہماری سیاست کا حصہ ہے- اگرچہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے، لیکن عوام اگر ہوشمندی کا مظاہرہ کرکے دھاندلی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے تو اس کا راستہ روک سکتے ہیں لہذا سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ضروری ہے -عوام کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کاسٹ کرتے وقت کم ازکم اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ جس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں کیا وہ اور اس کی پارٹی ماضی میں برسر اقتدار رہے ہیں، اگر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے دور میں عوامی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیا ہے یا انہوں نے ریاستی طاقت استعمال کرکے قوم کے جان لیوا دشمن درندہ صفت کے حامل دہشتگردوں کو تقویت فراہم کیا ہے؟ عوام کو اس بات پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ وہ جسے ووٹ دے رہے ہیں کہیں وہ اپنے دور اقتدار میں قومی وسائل دہشتگردوں کو پالنے اور ان کی تربیت کرنے والے مدارس پر خرچ کرنے والے تو نہیں؟ کہیں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے زرخرید مولیوں کی زبان سے کفر کے فتوے نکلوانے تو نہیں یا لال مسجد کو اپنوں کے ہاتھوں آگ لگوا کر اسے اقلیتی گروہ کا کیا دھرا ثابت کرکے فسادات کا بازار گرم کرنے والے تو نہیں؟ کہیں وہ 16 جنوری 2018ءکو ایوانِ صدر پاکستان میں پیغامِ پاکستان کے نام سے امریکہ سے ملنے والے ڈالر بند ہونے کے خوف سے ٹرمپ کو خوش کرنے کےلئے 1829 علمائے کرام کو جمع کرکے فتوی صادر کرواکر پوری دنیا میں مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بننے والے تو نہیںہو… ان پہلووں پر غور کرکے ہی ووٹ کاسٹ کرنا عقلمندی اور دانشمندی کی علامت ہے۔

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیا ں چمکنے پرہوتا ہے -جب انسان طمع و حرص میں پڑ جاتا ہے تو رشوت,چوری,خیانت,سود خور ی اور اس قبیلے کے دوسرے اخلاقی عیوب اس میں پیدا ہوجاتے ہیں اورعقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خیرہ ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبیح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہیں آتے کہ وہ اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنیا سے رخت سفر باندھنے پر تیار ہوتاہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ سمیٹا تھا وہ یہیں کے لیے تھا ساتھ نہیں لے جاسکتا,تو اس وقت آنکھیں کھلتی ہیں ۔بے شک موروثی سیاست کا خاتمہ کرکے ہی پاکستانی قوم خوش بختی سے ہمکنار ہوسکتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے