مسلک کا اکڑبکڑ بمبے بو

یہ اس دور کی بات ہے جب علم والے ہوتے تھے اور علم ہوتا تھا ۔ اور یہ بہت زیادہ پرانی بھی نہیں بلکہ سن دو ہزار کے آس پاس کی بات ہے۔میں نے جس معاشرے میں شعور کی آنکھ کھولی وہ اس وقت کا مثالی معاشرہ تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ماحول جس میں انسان پرورش پاتا ہے اور وہ تربیت جو اس کی روحانی نشوونما کے لئے کی جاتی ہے آنے والی زندگی میں انسان اسی کے زیرِ اثر رہتا ہے ۔

غالباً میں پانچویں جماعت کا طا لب علم تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے گاؤں میں بجلی تک موجود نہیں تھی سڑک کا خیال تو کسی کے خواب میں بھی نہیں آیا ہوا ہوگا لیکن ایک چیز جو معاشرے کے ہر فرد اور گاؤں کے ہر گھر میں موجود تھی وہ تھی محبت، پیار اور ایک دوسرے کا خیال ۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ آج اس پیار و محبت کا عشر و عشیربھی کسی جگہ موجود نہیں ۔۔۔۔

گاؤں کی وہ صبحیں اور شامیں یاد کر کے آنکھیں بھر آتی ہیں جہاں ہر گھر اپنا گھر ، ہر دکھ اپنا دکھ، ہر خوشی اپنی خوشی ہوتی تھی ۔ سکول سے واپس آ کر کھانا کھاتے اور بکریاں چرانے جنگل چلے جاتے وہاں سے لکڑیاں بھی کاٹ کر لاتے۔ بکریاں چرانے کا شوق آج کےفیس بک استعمال کرنے سے بھی زیادہ ہوتا ۔ لکڑیاں بناتے وقت کوشش ہوتی کہ سب سے زیادہ لکڑیاں اکھٹی کی جائیں ۔ پڑھائی اور گھر کے کام اتنے شوق سے کرتے تھے جتنے شوق سے ہم آج تہذیب کا پیزا کھانے جاتے ہیں ۔

کسی کے گھر میں ایسے آنا جانا ہوتا جیسے اپنا گھر ہو۔ ماموں مامی، خالو خالہ ، چاچا چاچی اورتائی تایا جیسے رشتے ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہوتے۔ ننھیال چلے جاتے تو واپس آنے کا دل ہی نہ کرتا ۔ رشتہ داروں کے گھروں میں بلا جھجک جاتے روٹی پک رہی ہوتی چولہے کے پاس بیٹھ جاتے روٹی مانگ کر کھاتے گھر کی طرح وہاں بھی جھگڑا کرتے ۔ ہمارے جھگڑوں سے نہ کوئی تنگ ہوتا نہ ہماری شرارتوں کا بُرا منایا جاتا جب کسی کا کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو ماں باپ اپنے بیٹے کو سزا دیتے تھے دوسروں کے بچوں کی شکایت نہ لگاتے نہ انہیں کچھ کہا جاتا بلکہ ان سے پیارکیا جاتا۔۔

ہر گھر میں بھینس اور بکری لازمی ہوتی ۔ خالص دودھ اور لسی اتنی ہوتی کہ گاؤں کا کوئی گھر اس سے خالی نہ ہوتا جس گھر میں نہ ہوتی وہاں مانگے بغیر خود بھیج دی جاتی ۔ گھر آنے والے کی تواضع دودھ ، مکھن اور دیسی گھی سے کی جاتی ۔ گھاس کاٹنے کا سیزن ہوتا ، یا مکئی اور گندم کا ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مدد کی جاتی ۔ ایک شخص کی لیتری ہوتی تمام گاؤں آجاتا ، کسی کے کھیت میں ہل جوتنا ہوتا سب گاؤں والے اکھٹے ہو جاتے ایسی محنت سے مل کر کام کیا جاتا کہ کھیت اور کھلیان مہک اٹھتے ۔ آٹا پیسنے کی پن چکیاں ہوتی جنہیں مقامی زبان میں جندر کہا جاتا تھا۔۔ ہم کندھوں پر اٹھا کر گندم اور مکئی ان جندروں پر پسوانے کے لئے جاتے اس آٹے کی روٹی کا جو مزہ اس زبان نے چکھا وہ اس کے بعد آج تک اسےنصیب نہ ہوسکا ۔

پھلوں کے باغات بہت تھے ۔ آلوبخارا ، ناشپاتی ، خوبانی وافر مقدار میں ہوتے تھے ۔۔۔ بچپن کی لازوال شرارتوں میں سے ایک یہ بھی ہوتی کہ جو لوگ اپنے پھلوں کا زیادہ خیال رکھتے یا کھانے سے منع کرتے ہم ضد کر کے وہ پھل چُرا کر کھاتے ۔ لوگ ایک دوسرے کو تحفے میں پھل بھیجتے۔۔ کوئی کسی کے گھر جاتا تو مکھن ،دودھ یا کم از کم دیسی انڈے ضرور لے کر جاتا ۔ بیمار کی عیادت کے لئے دیسی مرغا ساتھ لے جانا لازمی تھا ۔کھانے کی دعوت کا رواج عام تھا ۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ضرور کچھ پکا کر تقسیم کرتا ۔ ایک دوسرے کے گھر سپیشل ڈشیں بنا کر بھیجی جاتیں ۔

شادی بیاہ کے موقعے پرپورا گاؤں اکھٹا ہو جاتا ۔ ننھیال والوں سے تو کام کرنے کے لئے دو دن پہلے آ جاتے گھر کا سب کام سنبھال لیتے گھر والوں کو سمجھ ہی نہ آتی تھی کہ انہوں نے کون سا کام کرنا ہے ۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام سنبھال لیتا ۔ اپنے اپنے گھروں سے عام استعمال کی اشیاء مثلاً کرسیاں ۔میز اور برتن وغیرہ بھی لے آتے ۔ پورا گاؤں ایک گھر بن جاتا دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہر کوئی ان کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ دور دراز سے آئے مہمان ان کے گھر ٹھہریں مہمان ایسی محبتیں دل میں سمیٹ کر جاتا کہ مدتوں بُھلا نہ پاتا۔

بچپن کے کھیل آج بھی یاد آتے ہیں تو ایک لطف سا آجاتا ہے ۔۔ ہم نےپکڑم پکڑائی کھیلی ، یسو پنجو بھی کھیلا، چھپن چھپائی (اس کو مقامی زبان میں ہم چھپو لبی کہتے تھے ) ، پٹھو گرم، بنٹے ،لُڈو، گوٹیاں ، ایچک دو چک بھی کھیلی اور سب سے مزیدار اور سب سے زیادہ اکڑ بکڑ بمبے بو،اسی نوے پورا سو بھی کھیلا ۔۔۔

پھر وقت تبدیل ہوا ۔ علم والے اٹھتے گئے علم بھی چلتا بنا ۔۔۔ علم کی جگہ مسلک آ گئے ، مسلک نے اپنے اپنےعقائد کے جمعہ بازار لگا لئے۔ عقیدوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی تو ہمیں ہمارا سٹیٹس پتا چلا ۔ ہمیں سمجھ آنے لگی ہم کتنا غلط کرتے رہے اور ہمارے آبا و اجداد کتنے بھٹکے ہوئے تھے ۔۔۔ ہمیں اپنی ذات اور قبیلے کا بھی علم ہوا اپنے مسلک اور مذہب پتا چلے ۔ ہمیں ہماری سنگین غلطی کا احساس ہوا ۔ ہم کتنے عرصے تک مشرکوں اور کافروں کو مسلمان سمجھ کر ایک پلیٹ میں ان کا جھوٹا کھاتے رہے۔ ہمارے مسلک کے دشمن ہمارے دوست کیوں رہتے؟

ہم ہمارے حق کو اور دوسروں کے کفر کو پہچان گئے۔ ہم نے ہاتھ کھینچ لئے ۔ ایک دوسرے کے گھروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ۔ ہماری آنکھوں میں محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔ مسلک سے محبت ہوئی تو انسانیت سے نفرت ہونے لگی ۔ اپنے مسالک کی خاطر انسانیت تباہ کر بیٹھے۔ یسو پنجو کھیلنا گناہ بن گیا ۔ چھپو لبی سے جنسی تسکین کی بو آنے لگی ۔ تو ہم تنہا ہو کر رہ گئے ہمارے رشتے ہم سے دور ہو گئے ۔ ہمارے مسلک سے ہمارا بھائی ،بہن ،دوست ، رشتہ جو بھی متصادم ہوا اسے ہم نے اپنے اسلام کے دائرے سے نکال کر تپتی دھوپ میں رکھ دیا۔ دنیا میں اس پر سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی حرام قرار دے دی آخرت کی جنت بھی اس سے چھین کر اپنے نام کر لی ۔ سوہم بچپن والا اکڑ بکڑ بمبے بو بھول کرمسلک کا اکڑبکڑ بمبے بو کھیلنے لگ گئے ۔

اکڑ بکڑ بمبے بو ، اسی نوے پورا سو
سو کا نوٹا ، تیتر موٹا چل مداری پیسہ کھوٹا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے