’ایف اے ٹی ایف کا اقدام شرمندگی کا باعث لیکن معیشت پر اثر نہیں پڑے گا‘

اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کا نام ’گرے لسٹ‘ میں ڈالنا بین الاقوامی سطح پر ملک کے لیے صرف ’شرمندگی‘ کا باعث بنے گا لیکن اس اقدام سے پاکستان کی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اس معاملے پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض پر پالیسی بیان دیتے ہوئے مشیر برائے خزانہ نے الزام لگایا کہ امریکا کی جانب سے دباؤ کے بعد ایف اے ٹی ایف کی جانب سے یہ فیصلہ ان کے اپنے قوانین اور طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔

اجلاس کے دوران مفتاح اسماعیل نے اس بات کی تصدیق کی کہ جون میں پاکستان کا نام ’ گرے لسٹ‘ میں ڈال دیا جائے گا، تاہم انہوں نے اگلے مرحلے میں ملک کا نام ’ بلیک لسٹ‘ میں آنے کے امکان کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نام دہشتگردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں ڈالنے کا فیصلہ سیاسی مقاصد پر کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان کا نام ’گرے لسٹ‘ میں ڈالوانے کے پیچھے امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ممالک نے یہ سب صرف پاکستان کے لیے شرمندگی پیدا کرنے اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا۔

خیال رہے کہ جب پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال دیا جائے گا اور دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے میں ’ اسٹریٹجک کمی‘ کے باعث پاکستان کا مالیاتی نظام بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جائے گا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاریخی پس منظر کے بارے میں بتاتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان 2008 سے 2010 تک ایف اے ٹی ایف کی ’بلیک لسٹ‘ میں تھا اور 2012 سے 2015 تک اس ادارے کی ’ گرے لسٹ‘ میں بھی پاکستان شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ملک میں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کو سالانہ رپورٹ بھیجنا ضروری تھا اور رواں سال 5 جنوری کو بھی پاکستان نے اپنی رپورٹ بھیجی تھی۔

مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے 12 فروری کو ایف اے ٹی ایف کو ایک اور رپورٹ بھیجی گئی تھی، جس میں بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی جانب سے دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی صدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے بعد کی جانبے والے کارروائیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تکنیکی طور پر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر پورا اترتا تھا لیکن دہشت گردوں کے مالی معاون ممالک کی واچ لسٹ میں نام ڈالنا سیاسی مقاصد کے تحت تھا۔

مشیر برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں ماہ حکومت کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کو ایک ایکشن پلان دیا جائے گا تاکہ ادارے کی طرف سے کمیوں کی نشاندہی کی جاسکے اور اس پلان کو جون میں اتفاق رائے سے منظور کرانے کے لیے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس پلان پر عملدرآمد کے لیے بین الاقوامی ادارہ نگرانی کرے گا اور ہمیں امید ہے کہ 6 ماہ سے ایک سال کے دوران پاکستان اس ’گرے لسٹ‘ سے باہر آجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل پاکستان نے تین سال گرے لسٹ میں گزارے ہیں اور اس وقت بین الاقوامی بونڈز، کثیر جہتی قرضے اور ترسیلات زر کی وصولی یا بھیجنا یا بین الاقوامی تجارت کی صلاحیت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے