راؤ انوار نے قانونی طریقے سے بیرون ملک سفر نہیں کیا، ایف آئی اے

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے سندھ پولیس کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس میں مطلوب معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے حوالے سے آگاہ کیا ہے کہ ملزم نے کسی بھی قانونی طریقے سے بیرون ملک سفر نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس نے راؤ انوار کی سفری معلومات حاصل کرنے کے لیے ایف آئی اے سے رابطہ کیا تھا، جیسا کہ اس سے قبل 23 جنوری کو بینظیر انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے امیگریشن اسٹاف نے سابق ایس ایس پی کے ملک سے باہر جانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ریاست کے تمام ادارے راؤ انوار کی تلاش اور ان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی مدد کرنے کے پابند ہیں، اے ایف آئی نے ملک کے تمام ایئرپورٹس پر موجود ان کے باڈر میجنمجنٹ نظام کے تحت وصول ہونے والی سفری معلومات کے حوالے سے سندھ پولیس کو آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق جب سے سابق ایس ایس پی ملیر کا نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا گیا ہے، ملزم نے ملک کے کسی بھی ایئرپورٹ اور سمندر کے راستے سے قانونی طور پر بیرون ملک کا سفر نہیں کیا، جہاں ایف آئی اے کی امیگریشن کی چیک پوسٹ ایسے مطلوب افراد پر نظر رکھتی ہے۔

تاہم ذرائع نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس ایسے افراد کی نگرانی کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں جو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔

ادھر بینظیر انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر ملزم کے بیرون ملک جانے کی کوشش کو ناکام بنائے جانے کے بعد سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اس قدر ہائی پروفائل ملزم اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکا۔

دوسری جانب سندھ پولیس نے نقیب اللہ کے جعلی پولیس مقابلے اور ماورائے عدالت قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف عبوری چالان انسداد دہشت گردی عدالت کے انتظامی جج کو پیش کردیا۔

رپورٹ کے مطابق خیال رہے کہ مذکورہ کیس کی تحقیقات ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک ایس ایس پی رینک کا پولیس آفیسر کررہا ہے تاہم اس کے باوجود عبوری چالان میں پولیس کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور مقتول پر دھماکا خیز مواد فریم کیے جانے کے الزامات شامل نہیں کیے گئے ہیں۔

کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر ایس ایس پی عابد علی قائم خانی نے عبوری تفتیشی رپورٹ میں 10 گرفتار پولیس افسران کے نام شامل کیے ہیں جبکہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر 14 پولیس اہلکاروں کو فرار قرار دیا ہے۔

عبوری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کیس ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں پر ماورائے عدالت قتل سے متعلق ہے تاہم اس حوالے سے پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ دفعہ 220 کو چالان میں شامل نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 24 فروری کو اسی عدالت میں نقیب اللہ اور دیگر قتل کیے جانے والے افراد کے حوالے سے پیش کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان افراد کو ہلاک قتل کرنے کے بعد پولیس افسران نے خود سے پستولیں اور گرینیڈز مقتولین کے ساتھ رکھے تھے، اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ تفتیشی افسر (آئی او) نے ہوم ڈپارٹمنٹ کو مذکورہ پولیس پارٹی کے خلاف سندھ آرمز ایکٹ 2013 کے حوالے سے کیس کے اندراج کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی تاہم وہ بھی مقتولین سے حاصل ہونے والے دھماکا خیز مواد کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کارروائی کے حوالے سے خاموش ہیں۔

علاوہ ازیں آئی او نے عبوری رپورٹ میں دھماکا خیز مواد ایکٹ 1908 کی متعلقہ دفعات کو شامل نہیں کیا اور اس حوالے سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا کہ آیا اس کے لیے علیحدہ ایف آئی آر درج کی جائے گی یا اس حوالے سے بھی ہوم ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے