نواز شریف ، جرمنی کے کیک اور کتاب

آج کے اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ کل میاں نواز شریف نے احتساب عدالت پیشی کے بعد راولپنڈی اسلام آباد کی مشہور بیکری تہذیب کا مطالعاتی دورہ کیا ان کی کھانے پینے کی مختلف اشیاء کا مشاہدہ کیا اور ان کے معیار کی ستائش کی ۔ان کے ھمراہ ان کی دختر مریم نواز اور پرویز رشید بھی تھے نظریاتی نواز شریف اور ھمارے موجودہ سپہ سالار جنرل باجوہ میں ایک قدر تو مشترک دکھائی دی کہ دونوں تہذیب بیکری کے دلدادہ ہیں ۔تہزیب بیکری کے مالک نون خاندان سے تو جنرل صاحب کے پرانے مراسم ھیں اور وہ ان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔تہزیب بیکری راحت بیکری لاھور کے نام سے پنڈی میں شروع ھوئی بعد ازاں لاھور اور پنڈی میں اختلاف ہوا اور یوں اس کا نیا نام رکھا گیا ۔ سیاستدانوں کی ذاتی زندگی بھی ہوتی ھے انہیں کسی بھی جگہ اور کاروباری مرکز جانے کا حق حاصل ھے ۔لیکن اس سے ان سیاستدانوں کی ذاتی پسند ناپسند اور دلچسپی کا پتہ چلتا ھے ۔زمانہ طالب علمی میں جرمنی رھنے کا اتفاق ہوا اس دوران کئی سیاستدانوں کی مہمان نوازی کا موقع ملا میرے دوست شفیق چودھری جرمنی میں مسلم لیگ کے صدر تھے میاں نواز شریف جب جرمنی آئے تو انہیں سٹٹ گارٹ شہر میں مرسیڈیز گاڑیوں کا کارخانہ دیکھنے کا اشتیاق وھاں تک لے گیا اسی طرح جرمن بیکری کے چند کیک انہیں بہت پسند تھے ۔

جنرل مشرف کے دور کی بات ھے جب نواز شریف چند دنوں کے لئے جرمنی کے شہر ھائیڈل برگ آئے یاد رھے کہ ھائیڈل برگ یونیورسٹی کا شمار یورپ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ھے علامہ اقبال بھی چند سمسٹر یہاں پڑھتے رھے دنیا کے بہت سے نوبل پیس پرائز سائنسدان فلسفی اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ھیں ۔خیر شام کو شفیق چودھری جن کی دعوت پر میاں نوازشریف جرمنی آئے تھے نے میاں صاحب کے اعزاز میں ضیافت کا اھتمام کیا ۔نواز شریف مجھ سے جرمنی کی ترقی کا راز پوچھنے لگے میں نے اپنی رائے دی کہ جہاں جرمنی کی ترقی میں بسمارک کی قیادت مختلف قبائل کا متحد ھو کر مضبوط ریاست کی بنیاد رکھنا اور قوم پرستی کو پروان چڑھانا شامل ھے مگر سب سے اھم جزو اس کا تعلیمی نظام ھے میں نے میاں صاحب کو تجویز دی کہ آپ کو جرمنی قیام کے دوران جرمنی کے اسکول اور ھائیڈل برگ یونیورسٹی کا دورہ کرنا چاھئے لیکن ان کے سیکرٹری نے انہیں یاد دلایا کہ کل انہیں ایک مشہور ترکی ریستوران میں لنچ کے لئے جانا ھے ۔

آج برسوں بعد جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ نواز شریف تہذیب بیکری رغبت سے گئے تو مجھے جرمنی کی وہ شام یاد آئی ۔میں پرویز رشید جیسے نظریاتی جمہوریت پسند شخص سے یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ نظریاتی نواز شریف کو اسلام آباد کی کسی مشہور کتابوں کی دکان لے کر جاتے لیکن میاں صاحب اور کتاب کا رشتہ اتنا مضبوط نہیں ۔قائداعظم سیاسی سوچ بچار اپنی لائیبریری میں کرتے اور فارغ اوقات میں مطالعہ بھی ۔

سردار شیر باز مزاری ذوالفقار علی بھٹو دور میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے ان کی ذاتی لائیبریری کا شمار پاکستان کے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ھے وہ اپنی کتاب میں لکھتے ھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات کراچی کی ایک مشہور کتابوں کی دوکان پر ہوئی بھٹو بین الاقوامی سیاست ادب اور فلسفہ پر لکھی گئی کتابوں کے رسیہ تھے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو مسڑ بکس اسلام آباد کا باقاعدگی سے چکر لگاتی ۔ بینظر بھٹو کی کلاس فیلو اور دوست وکٹوریہ سکوفیلڈ نے بتایا کہ بینظیر بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی میں فارغ اوقات میں مشہور دوکان بلیک ولز میں نئی کتابوں کی ورق گردانی میں گزارتی ۔

ایک میاں نوازشریف ھی کیا آج طالب علم پروفیسر صحافی وکیل ڈاکٹر انجنیئر سب کتاب سے دور ہوچکے ہیں اور جو قوم کتاب سے دور ہو جائے اس میں بڑے خیالات جنم نہیں لے سکتے وہ وسعت نظر سے محروم ہو جاتی ھے اور پاکستان اس دن ترقی کرے گا جس دن کتابوں کی دوکان میں تہذیب بیکری سے ذیادہ رش ہوگا اور اس کے سیاسی راھنما بھی کتابیں خریدتے دکھائی دیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے