چینی زبان کا فروغ اور پاکستانی زبان و ثقافت کا تحفظ

’’چیئر مین سینٹ جناب رضا ربانی نے کہا ہے کہ چینی زبان پاکستان اور چین کے کاروباری شعبہ کے مابین سہولت پیدا کر رہی ہے، پاکستانی زبان اور ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی زبان کو فروغ ملنا چاہئے جبکہ چینی سفیر پاؤچنگ کا کہنا ہے کہ چینی زبان دونوں ممالک کے درمیان گہرے رابطے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ چین خلوص اور وفاداری کے ساتھ معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان دیکھ رہا ہے، چینی زبان کے فروغ سے ثقافتی روابط بھی مضبوط ہو رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پاک چائنہ انسٹی ٹیوٹ اور جے ایس گلوبل کے اشتراک سے پیشہ ورانہ افراد کیلئے چینی زبان کی کلاسز کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔‘‘

چین ہمارا عظیم پڑوسی اور قابل اعتماد دوست ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد اب تک ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور علاقائی و بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کے استحکام و مفادات کو سپورٹ کیا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے مغربی دعویداروں کے مسلسل طرز عمل کو دیکھتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کی یہ پاکستان دوستی ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کی حیثیت رکھتی ہے جس پر ہم چینی حکومت اور عوام کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے بالخصوص ’’سی پیک‘‘ کے منصوبے میں پیش رفت نے پاک چین دوستی کو نئے رُخ سے روشناس کرایا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف بین الاقوامی تجارت کے فروغ بلکہ باہمی تجارت میں اضافہ کے روشن امکانات ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں جن سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اعلانیہ اور خفیہ مخالفین کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے مختلف النوع سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی حکومت، ادارے اور عوام بحمد اللہ تعالیٰ یکسو دکھائی دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ملک میں چینی زبان کی تعلیم کے بہت سے ادارے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں دائروں میں مصروف عمل ہیں اور پاکستانی عوام کی چینی زبان میں دلچسپی بڑھ رہی ہے البتہ اس کے ساتھ ساتھ بعض حلقوں کی طرف سے کچھ تحفظات سامنے آرہے ہیں اور ان کا دبے لفظوں میں اظہار ہونے لگا ہے جن کا اشارہ چیئر مین سینٹ کے مذکورہ ارشاد میں بھی ملتا ہے۔

گزشتہ دنوں لاہور کے سرکردہ تاجر حضرات کی ایک نجی محفل میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا تو یہ خدشہ سامنے آیا کہ اندرون ملک چین کے ساتھ تجارت کے فروغ سے پاکستانی تجارت کو جو مسائل درپیش ہوں گے اس سلسلہ میں جن خدشات کا احساس سامنے آرہا ہے ان پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ اور بحث و مباحثہ کا اہتمام نہ کیا گیا تو پاکستانی تجارت کے موجودہ ماحول بالخصوص متوسطہ تجارتی دائرے کو موجودہ شکل میں قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا، ان تاجر حضرات کی یہ بات سن کر مجھے وہ مباحثہ یاد آگیا جو بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کی تجویز کے موقع پر ہمارے قومی پریس اور مجالس میں کافی عرصہ تک جاری رہا اور کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے کھلے ماحول میں شاید ہم بھارتی تجارت کا صحت مندانہ مقابلہ نہ کر پائیں اور ہمارے متوسط درجہ کے تاجر کو بہت نچلی سطح پر اپنی سرگرمیوں کو لے جانا پڑے گا، اس دور میں ایک تاجر دوست سے میں نے سوال کیا تھا کہ تجارت کی جو اقدار و رجحانات ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے درمیانے طبقے کا تاجر کیا بھارتی تاجروں کا سامنا کر پائے گا اور کیا اسے نئے سسٹم اور ماحول میں ’’سیلز مین‘‘ کا مقام و کردار بھی حاصل رہے گا؟ اس موقع پر اس طرز کے بہت سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور پاکستان کی تاجر برادری نے مجموعی طور پر بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کو قبول نہیں کیا تھا، سوال یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے آزادانہ ماحول سے جو خطرات و خدشات محسوس کئے جا رہے تھے کیا اسی طرز کے خدشات اب دامن گیر نہیں ہوں گے؟

چین اور بھارت میں یہ واضح فرق موجود ہے کہ چین ہمیشہ سے ہمارا مخلص اور معتمد دوست ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات و معاملات کی نوعیت بہرحال دوستانہ اور مخلصانہ نہیں ہے لیکن تجارت کا مزاج تو کم و بیش ہر جگہ یکساں ہے اس لئے ان خدشات کی یکسر نفی نہیں کی جا سکتی البتہ یہ سہولت ہمیں حاصل ہے کہ ان خدشات و خطرات پر ہم چین کے ساتھ دوستی اور اعتماد کے ماحول میں گفتگو کر سکتے ہیں اور باہمی تبادلہ خیالات کے ذریعہ ذہنوں میں ابھرنے والے یا ابھارے جانے والے خدشات کا سدّ باب کر سکتے ہیں جس کیلئے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ تاجر برادری کو ان مسائل کا جائزہ لینے اور باہمی بحث و مباحثہ کے ذریعہ مستقبل کے امکانات و توقعات کو سامنے لانے کی نہ صرف دعوت دی جائے بلکہ اس کا وسیع پیمانے پر اہتمام بھی کیا جائے۔

اسی قسم کی صورت حال پاکستان کی قومی زبان اور ثقافت کے حوالہ سے بھی درپیش ہے، ہماری قومی زبان اردو ہے جو قیام پاکستان سے پہلے بھی انگلش زبان کے دباؤ کا شکار رہی ہے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اردو کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے باوجود انگریزی زبان کے اس دباؤ میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے اور دستور پاکستان کی ضمانت اور عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلوں کے ہوتے ہوئے بھی اردو زبان ہمارے ریاستی اداروں اور تعلیمی ماحول میں مناسب مقام حاصل نہیں کر پا رہی، اس فضا میں اسے اسی قسم کے مسائل کا اگر چینی زبان کے حوالہ سے بھی سابقہ پڑ گیا تو اس غریب کا کون پرسان حال ہو گا، بے چاری اردو عالمی سطح پر دنیا کی دوسری بڑی زبان شمار کئے جانے کے باوجود اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے اس میں سرسید احمد خان مرحوم، الطاف حسین حالی مرحوم، ڈپٹی نذیر احمد مرحوم اور مولوی عبد الحق مرحوم جیسے سہاروں کی اسے شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ثقافتی صورت حال پر بھی نظر ڈال لی جائے، ہم نے مسلمانوں کے جس ثقافتی امتیاز و تشخص کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک حاصل کیا تھا وہ ثقافتی تشخص و امتیاز پہلے ہی مغربی ثقافت اور ہندو کلچر کی مسلسل یلغار کی زد میں ہے اور اب اگر اسے دو طرفہ یلغار کے ساتھ ساتھ ایک تیسری ثقافت کا بھی سامنا کرنا پڑ گیا تو اس کی مشکلات کا دائرہ کس قدر وسیع ہو جائے گا۔ ویسے تو یہ بات اطمینان کی ہے کہ پاکستانی ثقافت و تہذیب کی بنیاد دین اسلام پر ہے اور ہماری دینی اقدار و روایات میں بحمد اللہ تعالیٰ ہر ثقافتی یلغار کا سامنا کرنے کا حوصلہ موجود ہے جس کا صدیوں سے عملی اظہار بھی ہو رہا ہے لیکن صرف اطمینان کے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے ہر ثقافتی یلغار کو ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی طرز پر دعوت دیتے چلے جانا بھی عقل و دانش کی بات نہیں ہے۔
سینٹ آف پاکستان کے چیئر مین محترم میاں رضا ربانی نے پاکستان میں چینی زبان کے فروغ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اور اس کی ضرو رت و اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کی زبان اور ثقافت کو ملحوظ رکھنے کی جو بات کی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ چند گزارشات ہم نے پیش کر دی ہیں جبکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف پاکستان کی زبان و ثقافت بلکہ ملکی تجارت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ گفتگو کا اہتمام کیا جائے اور اپنے مخلص اور دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین کی حکومت و قیادت سے محبت و اعتماد کی فضا میں بات چیت کر کے ان خدشات کے ازالہ کا اہتمام کیا جائے تا کہ پاکستان اور چین کی یہ لازوال دوستی اپنے نئے دور کا آغاز مکمل باہمی اعتماد کے ساتھ کر سکے اور اپنے منطقی اہداف کی منزل سے ہمکنارہوں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے