سیز فائر لائن پر زندگی کیسے گزرتی ہے؟

سوچیں آپ کا گھر حد متارکہ (سیز فائر لائن) جسے بعد میں ایل او سی کا نام دے دیا گیا کہ بالکل سامنے ہیں۔ آپ کے گھر کے چند کوس کے فاصلے پر پاکستانی اور بالکل سامنے ہی کسی نالے، دریا یا گھاٹی کے اوپر ہندوستانی فوجیں مورچہ زن ہیں۔ باہر مسلسل گولا باری ہو رہی ہے۔ بڑے گولے گر رہے ہیں، چھوٹی رینج کی گولیاں چل رہی ہیں۔ نشانے لیے جا رہے ہیں ، آپ کے ہاں شام نہیں ہوتی ہے۔ رات کا تصور صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آسمان کے تاروں کے علاوہ زمین پر بھی سرک و سپید لمبی لمبی لائنیں قطار در قطار ایک دوسرے کی سمت میں مسلسل چل رہی ہیں۔ سامنے کی گھاٹی پر ہر آدھے گھنٹے بعد روشنی کا ایک گولا نمودار ہوتا ہو۔ بچوں کی چیخ بڑھتی ہو، جانوروں میں بے قراری اور بڑوں میں تشویش ، چند ہیبت ناک آوازوں کے بعد گولیوں اور پھر گولوں کی گھن گرج شروع ہوتی ہو آن کی آن میں دونوں اطراف سے بھاری گولے پورے گاؤں اور علاقے پر جاڑے کی بارش کی طرح برسنا شروع کر دیتے ہوں جس میں بڑے بڑے اولے بھی ہوں تاوقتکہ چیخوں اور آہوں کے بعد موت کا سکوت چھا جاتا ہو۔

دن کی روشنی میں یہ معلوم کرنا قدرے آسان ہوتا ہے کہ گولا کہاں گرا اور فضا میں دھول اور کتنی مٹی اٹھی لیکن رات میں اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا ۔ کون مرا کہاں مرا؟ کس کے چیتھڑے اڑ گئے؟ کس کے سینے کو تین انچ کی گولی نے سوراخ کر کے پار کیا؟ کس کا بازو، ٹانگ ، آنکھ ، ناک کان اور جسم کا کوئی دوسرا حصہ "شیل” لگنے سے ناکارہ ہو چکا ہے؟سردیوں میں جانوروں کے چارے کے لیے اگھٹی کی گئی گھاس کتنی دیر تک جلتی رہی؟ گھر کے دوسری طرف باڑے میں باندھے گئے جانوروں میں سے کس کی سانسیں ابھی باقی ہیں ؟

اندھیرا چھٹتے ہی آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے ہمسائے میں رہنے والے ستر سالہ بزرگ رات کو پیشاب کے لیے باہر نکلے تھے واپس نہیں لوٹے صبح ان کی گولی لگی لاش سامنے والے کھیت سے ملی ہے ۔ انوار صاحب کے بچے صبح اسکول جا رہے تھے راستے میں وین پر گولا لگا ڈرائیور ہلاک ہو چکا ہے دو بچے بھی ساتھ ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے باقی کہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ دلشاد صاحب کے مکان پر گولا لگا ہے پورا مکان تباہ ہو چکا ہے یہ مکان انہوں نے دس سال دبئی میں محنت کر کے خچروں پر بجری، سیمنٹ اور ریت لاد کر بنوایا تھا لیکن ایک ہی گولے سے پورا مکان زمین بوس ہو چکا ہے خوش قسمتی سے ان کے بچے اس وقت خندق نما مورچے میں تھے جس کی وجہ سے محفوظ رہے۔ تائی حلیمہ کی چار گائیں اور تین بکریاں رات میں کسی پہر گولا باری کی وجہ سے مردار ہوچکی ہیں ۔ اس بے چاری کا تو گزر بسر ہی اسی پر تھا، اللہ بخشے ا س کے شوہر رحمت کاکا کو برسوں پہلے ہی مر چکا ہے اس بے چاری نے انہی جانوروں کے بھروسے اپنی بیٹی کی شادی بھی کرنی تھی ابھی۔

نہ تو یہ ہالی وڈ کی کسی میگا بجٹ فلم کا سین ہے اور نہ ہی ہندی تامل فلم کا جسے آپ تین گھنٹے سینما کی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھیں اور پھر چند بار جملوں کی برمحل ادائیگی ، کرداروں کی اداکاری، فلم ساز کی مہارت اور کہانی کار کے تخیل کی داد دے کر بھول جائیں کہ آپ نے ایسی کوئی فلم بھی دیکھی ہے بلکہ یہ یہ سیز فائر لائن کے آر پار بسنے والے لوگوں کی حقیقی زندگی میں وہ سین ہیں جنہیں وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں وہ کردار کی اداکاری میں غرق نہیں ہیں بلکہ خود کردار ہیں۔ نہ تو کہانی کار کا تخیل ہے، نہ لمبے لمبے ڈائیلاگ اور نہ ہی فلم ساز کی مہارت بلکہ یا تو آہوں اور چیخوں کا شور ہے ، یا گولوں کی گھن گرج اور گرد غبار یا پھر گہری خاموشی۔

سیز فائر لائن پر بسنے والوں کی زندگی ان دنوں اجیرن ہے۔ برہان وانی کی وفات کے بعد جب اوڑی اٹیک ہوا تو اس کے جواب مین بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کیا۔ یعنی قیامت کا پیش خیمہ ثابت ہونے والے ان واقعات نے مستقبل میں سیز فائر لائن پر بسنے والی زندگیوں کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا۔ حالیہ ساٹھ دنوں میں کم و بیش بچیس افراد جبکہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں سو سے زیادہ افراد اس خونی لکیر کے دونوں اطراف میں چلنے والی سفید و سرخ روشنیوں اور خوف ناک دھماکوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ زخموں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے ۔ دفتر خارجہ ہر تین چار دن بعد ایک عدد پریس بریفنگ کے ذریعے بھارتی جارحیت پر مذمت کرتا ہے۔ ٹیوٹ سے ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ بھارتی جارحیت اور حماقت کا بھر پور طریقے سے جواب دیا گیا ہے۔ نتیجتا سیز فائر لائن اور ورکنگ باؤنڈری کے اس پار سے رشتے دار اپنے نقصان کا خبریں دے رہے ہوتے ہیں۔

آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا اس سے بین بین بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ پاکستانی میڈیا کو وہاں مرنے والے افراد سے کوئی سروکار نہیں ہے، انہیں اس سے مطلب ہے کہ دفتر خارجہ نے پرزور مذمت کی ہے ۔ اس ساری صورت حال کے بعد سیز فائر لائن پر بسنے والوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو ہجرت کر جائیں یا پھر وہیں دفن ہو جائیں۔ پاکستان کے سماجی حقوق کے ایکٹیوسٹ، تنظیمیں، کارکن، صحافی برادری، وکلاء ، فلسفیوں اور کالم نگاروں کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی اسے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ آخر یہ ظلم سیز فائر لائن پر ہی کیوں؟ اگر پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تضادات ہیں اور ان کو جنگ کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے تو جنگ حد متارکہ میں رہنے والے لوگوں پر ہی کیوں مسلط کی گئی ہے۔ بین الاقوامی سرحد پر بھی تو لڑی جا سکتی ہے۔

یہ جنگ صریحا کشمیریوں کی نہیں ہے اور نہ ہی حد متارکہ پر بسنے والے لوگوں کی ہے یہ جنگ پاکستان و ہندوستان کی خارجی جنگ ہے اور ان دونوں ملکوں کو اس کا فیصلہ پرامن طریقے سے کرنا ہو گا لیکن اس کا لقمہ کشمیری بن رہے ہیں اور خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں نقصان کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ میڈیا کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کوریج کرنا آسان ہے۔ حد متارکہ پر بسنے والے لوگوں نے پاکستان کی سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں تاکہ ان کی زندگی سہل ہو سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے