جاوید چوہدری صاحب اب بھی وقت ہے

جاوید چوہدری صاحب پاکستان کے مشہور صحافی اور کالم نگار ہیں،انکی تحریریں سادہ اور بامقصد ہوتی ہیں

انکی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے، وہ دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں،وہ اکثر اپنی قوم کی ترقی کیلئے لکھتے ہیں، ان پر تنقید کرتے ہیں، انکی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں،انھیں خوابی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انکی تحریروں میں محنت و عمل کی رغبت دلائی جاتی ہے
شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ
وہ خود پہلے محنتی نہیں تھے، آپ کو جان کر حیرت ہوگی، وہ بعض کلاسوں میں فیل بھی ہوئے تھے، پھر ایک نالائق دوست کیوجہ سے انکی محنتی زندگی کا آغاز ہوا، پھر ایک دن لاہور کے جناح پارک میں انھیں ایک شخص ملا، جس نے انھیں کچھ بہترین مشورے دیے، جس کے بعد وہ کالم نگار بن گئے، آج وہ پاکستان کے مشہور ترین کالم نگاروں میں سے ایک ہیں۔
یہ تو انکا مختصر سا تعارف تھا، اب ہم آپ کو اصل مقصد کی طرف لاتے ہیں۔

در اصل بات یہ ہے کہ
جاوید چوہدری صاحب نے ایک کالم لکھا ہے
جس کا نام ہے

” سچے اور کھرے مسلمان”

اس میں انھوں نے مسلمان قوم پر خوب تنقید کی ہے
کہتے ہیں
مسلمانوں نے پچھلے پانچ سو سال میں کافروں سے کوئی بڑی جنگ نہیں جیتی، مسلمان پچھلے پانچ سو سال سے مار اور صرف مار ہی کھا رہے ہیں
مسلمان ہر چیز میں کافروں پر انحصار کرتے ہیں، انھوں نے اپنا کچھ ایجاد نہیں کیا، حتی کہ
یہ کافروں سے خریدے ہوئے اسلحے کے بغیر بیت اللہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
کہتے ہیں
پہلی جنگ عظیم سے پہلے تمام عرب ،خلافت عثمانیہ کے تحت متحد تھے،لیکن 1918 میں یورپ نے انھیں 12 ملکوں میں تقسیم کر دیا،
لیکن دنیا کی بہادر قوم صرف دیکھتی ہی رہی

پھر کہتے ہیں
برطانیہ نے عربوں سے فلسطین چھین کر اسرائیل بنا دیا، لیکن مسلمان فقط نعروں اور یوم القدس منانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔

مزید کہتے ہیں
مسلمانوں کی نوے فیصد فتوحات پہلی صدی کی ہیں، باقی صدیاں انھوں نے آپس میں لڑتے گزاری ہیں۔

مزید کہتے ہیں
مسلمانوں کا علم، فلسفہ اور ایجادات بھی صرف پہلی تین صدیوں تک محدود ہیں۔

اسی طرح چند دیگر چیزوں پر بھی انھوں نے تنقید کی ہے

پہلے تو مجھے انکی تحریر پڑھ کر غصہ آیا
لیکن
جب ٹھنڈے دماغ سے سوچا، تو دل نے کہا، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے،ہمیں تسلیم کرنا چاہیے، ہم وہ کام نہیں کر سکے، جو اس دور کے ذہن کو اپنی طرف کھینچ سکتے۔
ہم اپنی شاندار تاریخ بنانا تو بہت دور کی بات ہے، ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنی تاریخ لکھوا بھی نہیں سکے۔
لیکن
کیا پانی سر سے گزر چکا ہے، یا اب بھی وقت ہے ۔۔۔؟؟
یقینا
اب بھی وقت ہے، ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں،یقین مانیے، ہم مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔

وہ چند کام جو مسلمانوں کو کرنے چاہییں
درج ذیل ہیں
سب سے پہلے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے وابسطہ لوگ
یورپی علوم کا ترجمہ اردو زبان میں کریں،
تاکہ ہمارے بچے اسے آسانی سے سمجھ سکیں، مزید آسانی کے لیے انکی ڈیجیٹل لائبریریاں بنائی جائیں ،تاکہ فری میں ہر شخص ہزاروں کتب اپنے پاس رکھ سکے اور پڑھ سکے ۔

میٹرک، ایف اے، بی اے کے بجائے ،بنیادی اخلاقی تعلیم کے ساتھ ٹینکنیکل تعلیم کو عام کیا جائے، تاکہ ہر شخص کچھ بنانے کے قابل ہو۔

پھرہر جگہ تجرہ گائیں قائم کی جائیں،جہاں نئے نئے تجربات کیے جا سکے ہیں، سوئی سے لے کر بحری جہاز تک بنائے جا سکیں، ٹیلینٹڈ افراد کو آگے لایا جائے، ان سے ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسا سلوک نہ کیا جائے۔

ایجادات کیلئے
یہ کیا جا سکتا ہے کہ
حکومت دنیا سے اعلی درجہ کے چند سائنسدان بلائے، انھیں کروڑوں روپے تنخواہ دے اور کہے ،ہمارا ملک کے صرف ان دس ذہین ترین بچوں کو سائنسی علوم سکھا دو۔
جب یہ دس بجے سائنس دان بن جائیں، تو ان پر اربوں روپے خرچ کیے جائیں،انھیں منہ مانگی چیزیں لا کر دی جائے، انھیں بادشاہوں جیسی عزت دی جائے، ان سے کہا جائے، آپ اپنی ساری زندگی میں صرف کوئی ایک چیز ایجاد کر دو، جس میں دنیا ہماری محتاج ہو جائے۔
خدا کی قسم!
ایسا کرنے سے
وہ وہ چیزیں ایجاد ہو جائیں گی، جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے

فوجی طاقت کیلئے، مسلم ممالک اپنی سرکاری فوجیں متحد کرلیں،انکی تربیت اسلامی جہادی نظریہ پر کریں،مال غنیمت کمائی کا بہترین ذریعہ ہے، فتوحات کیلئے ہیبت ناک اور انتہائی تباہ کن قسم کا اسلحہ بنائیں۔
یقینا یہ کام یونیورسٹیوں کے طلباء و پروفیسرز کرسکتے ہیں۔

مسلم ممالک میڈیا کا درست استعمال کریں،تو اس سے بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے، مثلا
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پابند کریں، آپ اپنا دسواں حصہ سیاسی خبروں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں جبکہ نوے فیصد حصہ ٹیکنالوجی کے فروغ اور سیکھنے سکھانے کیلئے استعمال کرنا ضروری ہے ۔
مثلا
دیکھیں، اگر ایک چینل روزانہ دو گھنٹے انگلش زبان سکھائے،دو گھنٹے چینی زبان سکھائے، الیکٹرک اور الیکٹرونکس اشیاء کے بارے میں ٹیکنیکل معلومات دے، کپڑوں کی کٹنگ اور سلائی سکھائے، درجنوں ہنر سکھائے، ترقی کے نئے نئے طریقے بتائے، تو یقین مانیے، لاکھوں لوگ گھر بیٹھے ہنر مند ہو جائیں گے ۔
پھر امرود کی ریڑھیوں پر بھی عمران خان ،نواز شریف، جمہوریت اور امریت کے بجائے، ہنر سیکھنے سکھانے کی باتیں ہو گئی ۔
ہمارے ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، ممکن ہے دنیا ہمارے ہنر مندوں کو اپنے پاس بلانے پر مجبور ہو جائے۔
کاش !
میڈیا ہمیں سیاست اور تبصرے کے علاوہ بھی کچھ سکھاتا ،تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

مسلمانوں کی آبادی انکی بہت بڑی طاقت ہے، اسے اپنی ترقی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے
مثلا
مسلم ممالک ایک قانون بنائیں، فلاں فلاں غیر ملکی چیز خریدنا جرم ہے،جو خریدے گا، اسے سزا ملے گئی،اسے دھشت گرد اور انتہاء پسند سمجھا جائے گا ۔
مثلا
لیز چپس اور کوکا کولا بوتل پر پابندی لگادی جائے، اس کے بدلے مسلم چپس اور مسلم کولا کو ماہرین کے زیر نگرانی تیار کرایا جائے، اس کا معیار برقرار رکھنے کیلئے بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے، سوچیں، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے بچے اگر مسلم چپس اور مسلم کولا خریدیں، تو کیا ہماری کمپنی کو کسی دوسرے خرید کی ضرورت ہو گی۔
لیکن
یاد رہے
یہ کام حکومت کر سکتی ہے، یا میڈیا اور مالدار لوگ کر سکتے ہیں
اگر کوئی کہے
ڈھوک کالا خان کے مولوی صاحب ،دو ماہ لیٹ ملنے والی ساڑھے چھ ہزار روپے تنخواہ میں یہ کام کیوں نہیں کر رہے، تو یقینا یہ زیادتی ہو گی۔
میرا ایک مشورہ ہے
اگر مدارس کو دین اور یونیورسٹیوں کو دنیا کی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے
تو ہماری بہت سی لڑائیاں اور جھگڑے ختم ہو جائیں گے ۔

میری آپ سے گزارش ہے، آپ بھی تحقیق کریں، مسلمانوں نے پچھلے پانچ سو سال بلکہ پچھلے ہزار سال میں کیا کیا ہے،جو کچھ ملے، وہ ادب احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھیں، اور کتابی شکل میں جاوید چوہدری صاحب کے ایڈریس پر پوسٹ کر دیں، یا انھیں ای میل کر دیں۔
تاکہ انکی بھی اصلاح ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے