شدت پسندی اور بے بس سیکولر طبقہ: ذمہ دار کون؟

بھارت میں حال ہی میں اختتام پذیرصوبائی انتخابات میں مرکز میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تین شمال مشرقی صوبوں کی اسمبلیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ سب سے اہم کامیابی اس کو سرحدی صوبہ تری پورہ میں حاصل ہوئی، جہاں اس نے شمالی بھارت میں بائیں بازو محاذ یعنی کمیونسٹوں کے آخری قلعہ کو فتح کرلیا۔ اس طرح لیفٹ فرنٹ اب صرف واحد جنوبی صوبہ کیرالا تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ان نتائج کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ 25سالوں سے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ)کے راہنما مانک سرکار کو بی جے پی نے تری پورہ میں اقتدار سے بے دخل کردیا۔

مانک سرکار موجودہ دور میں سیاسی اور ذاتی ایمان داری کے جیتے جاگتے پیکر تھے۔ اپنے گھر سے سیکرٹریٹ تک رکشہ میں سوار ان کی تصویریں اکثر اخباروں میں چھپتی تھیں۔ ذاتی استعمال کیلئے وہ کبھی بھی سرکاری گاڑی کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کے اہل خانہ بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں ہی اپنے دفاتر جاتے تھے۔ دو دہائی سے زائد پاور میں رہنے کے باوجود وہ اپنے بینک اکاونٹ میں محض2410روپے کے ساتھ عہدہ سے فارغ ہوگئے۔آخر بھارت میں سیکولر اور لبرل طبقہ اس حد تک بے بس کیوں ہوگیا ہے، کہ ووٹر مانک سرکار جیسے شخص کو بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے؟

پوری دنیا اس وقت شدت پسندی کا سامنا کر رہی ہے۔ مگر مغرب اور اسلامی دنیا میں ابھی تک شدت پسند عناصر حاشیہ پرہیں اور وہیں سے ہی وہ حکومتوں کو للکار رہے ہیں۔ مگر بھارت میں یہ عناصر نہ صرف مین اسٹریم میں داخل ہوچکے ہیں، بلکہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر برا جمان ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیکولر بھارت میں ہندو شدت پسندی کے فروغ کا سہرا خود اسی نام نہاد لبرل طبقہ کے سر ہے۔ کئی بار دانشوروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے سابق کانگریسی حکومتوں اور صوبوں میں بائیں بازو کی سرکاروں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے یہاں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں نصاب کا جائزہ لیں اور مسخ کی گئی تاریخ اور دیگر مواد کو حذف کرلیں، جس سے معصوم ذہنوں کو مسموم کرکے ایک خاص فرقہ کے خلاف لام بند کرایا جا رہا تھا۔

آج کے بھارت کی تصویر اور ہندو قوم پرستوں کی حکومتی عہدوں تک رسائی پچھلے کئی دہائیوں سے اسکولوں میں اسی برین واشنگ کی دین ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے سینٹرل بورڈ کی کلاس چھ کی صحت و صفائی سے متعلق نصابی کتاب میں بچوں کو بتایا جا رہا ہے کہ گوشت خور انسان جھوٹے اور متشدد ہوتے ہیں۔ وہ سبھی برائیوں یعنی چوری اور جنسی جرائم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ گجرات کے پرائمری اسکول کی سوشل سائنس کی کتاب میں معصوم ذہنوں کی تربیت دی جا رہی ہے کہ پڑوسی ممالک کو کسی بھی صورت میں بھارت سے الگ تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے۔’’وہ اکھنڈ بھارت کا حصہ ہیں اور جلد یا بدیر ان کو بھارت میں آنا ہے۔‘‘ اسی صوبہ کی درجہ آٹھ کی تاریخ کی کتاب بتاتی ہے کہ 1947میں تقسیم کے بعد ایک ملک اسلامک اسلام آباد کے نام سے وجود میں آیا، جس کا دارالحکومت ہندو کش پہاڑوں میں واقع ’’خیبر گھاٹ‘‘ ہے۔ راجستھان اور مہاراشٹرہ صوبوں میں خاص طور پر مسلم حکمرانوں خاص طور پر مغلوں کو خونخوار عیاش و بدمعاش ، جبکہ مہارانہ پرتاپ اور شیواجی کو ہیرو اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔

1977میں جب پہلی بار بھارت میں غیر کانگریسی حکومت بر سر اقتدار آگئی تو وزارت اطلاعات اور نشریات کا قلمدان لال کشن ایڈوانی کے سپرد کیا گیا ۔ ان کے تین سال کے قلیل عرصہ میں ہی ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا میں اس حد تک سرایت کر گئے کہ بعد میں کسی بھی حکومت کیلئے اس زہر کو نکالنا ممکن نہیں ہوسکا۔

اسی طرح 1998 میں جب پہلی بار بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت اقتدار میں آئی تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کیلئے آر ایس ایس کا فرمان تھا کہ باقی سبھی وزارتوں کو اتحادیوں میں تقسیم کرنے میں وہ آزاد ہیں، مگر تعلیم خاص طور پر پرائمری تعلیم کی وزارت آر ایس ایس کے کارکن کے پاس رہنی چاہئے۔ اس طرح آئندہ 6سال تک یہ وزارت بی جے پی کے سابق سربراہ مرلی منوہر جوشی کے سپرد رہی۔

اس وقفہ میں نہ صرف تاریخ بلکہ سائنس کو بھی اس حد تک مسخ کیا گیا ، کہ آج بھارت میں یہ کہنا کہ آریہ وسط ایشیا یا باہر سے آئے تھے ایک طرح سے جرم ہے۔ کیونکہ اونچی ذات کے ہندو جو خود کو فخراً آریہ نسل جتاتے ہیں، کو خدشہ ہے کہ ان کے باہر سے آنے کی تھیوری سے بعد میں مسلمانوں کی آمد کو اور ان کی حکومت کو جواز مل جاتا ہے۔ اور ان کو حملہ آور اور قابض نہیں گردانا جاسکتا ہے ۔

چونکہ آئین کی رو سے تعلیم کا شعبہ صوبوں کے زیر تصرف ہے اس لئے اس دور میں اس مسخ شدہ نصاب کا اثر گراونڈ پر فوری طور پر دیکھنے میں نہیں آیا۔ مارچ 2018میں اب بھارت کے 29 صوبوں میں 21 میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول ان سیکولر حکومتوں کے زیر سایہ سرکاری امداد پر چل رہے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مند روں میں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی جارہی تھی۔ اس کا سیدھا اثر اب دکھائی دے رہا ہے۔

مغربی بنگال میں 30سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود بائیں بازو کی جماعتوں کے اراکین اور ان کے اہل خانہ اب جوق در جوق بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہی حال اڑیسہ صوبہ کا بھی ہے۔ کس قسم کا تاریخی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے، اس کی ایک ہلکی مثال یہ ہے: ”مسلمان حکمرانوں کا مقصد ہندوؤں کو ختم کرنا تھا۔ افغانستان میں تمام ہندوؤں کا قتل عام کیا گیا۔ جنوبی بھارت کی بہمنی سلطنت نے ہر سال ایک لاکھ ہندوؤں کو قتل کرنے کا ٹارگٹ مقررکیا تھا۔ اس عہد میں ہندو آبادی 80 ملین تک کم ہوئی جس کو تاریخ کی بدترین نسل کشی بتایا گیا ہے‘‘۔

اب ان اداروں سے فارغ ہونے والے اور اس طرح کا لٹریچر پڑھنے والے بچے متعصب ذہن نہیں ہوں گے تو اورکیا ہوں گے؟ یہ بھی جتایا جاتا ہے، کہ مسلم حکمرانوں کے آنے سے قبل بھارت ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک تھا، جس کو مسلمانوں نے برباد کرکے جہالت کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔

تاریخ اور سوشل اسٹڈیز کے علاوہ سائنس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ دو سال قبل6 نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں کی موجودگی میں ممبئی میں منعقد انڈین سائنس کانگریس میں نہ صرف مشتبہ قسم کے سائنس دانوں اور ماہرین نے بلکہ مرکزی وزیروں نے بھی سائنس کو ہندو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی اور ہندو دھرم اوراس کی دھارمک کتابوں کو ہوائی جہاز سے لے کر نیوکلیائی سائنس تک بیشتر ایجادات کا ماخذ قرار دیا۔ بتایا گیا کہ مہارِشی بھردواج نے، جو پندرہ سو سے پانچ سو برس قبل مسیح زمانے کے درمیان پیدا ہوئے تھے، پانچ سو ایسی گائیڈ لائنز دنیا کے سامنے پیش کی تھیں جو ہوائی جہازوں سے متعلق تھیں۔ مہا رشی سے منسوب اڑنے والی ایسی چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا جو ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ قدیم بھارت میں ”جمبو‘‘ طیاروں میں چالیس چھوٹے انجن لگے ہوتے تھے اور وہ نہ صرف یہ کہ آگے کی جانب سفر کر سکتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف بھی۔ اور جب ان نام نہاد سائنس دانوں سے پوچھا گیا کہ آخر ان جہازوں میں کون سا ایندھن استعمال ہوتا تھا تو چار قدیم سنسکرت کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان جہازوں کے موٹر ایک سپیشل ایندھن سے چلتے تھے جس میں اور چیزوں کے علاوہ گدھے کا پیشاب بھی استعمال ہوتا تھا۔

ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت کے سربراہ ڈاکٹرگوری مہولکر کہتے ہیں کہ فیثاغورث سے 300 سال قبل بودھیان نے سلبھ سوتر میں جیومیٹری کا جوفارمولہ لکھا تھا وہی دراصل فیثا غورث کی تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک دوسرے اسکالر کا کہنا تھا کہ گائے میں ایک ایسا جرثومہ ہوتا ہے جو اس کے ذریعہ کھائی گئی خوراک کو24 قیراط کے سونے میں تبدیل کردیتا ہے۔

مہا بھارت کی جنگ کے دوران ویدک زمانے کے وہ ہوائی جہاز زمین سے چاند پر ہوتے ہوئے مریخ سیارے پر گئے تھے جہاں ایک راجہ نے اپنے حریف پر حملہ کیا تھا اوراس کے ہیلمٹ کو توڑ ڈالا تھا۔ خود وزیر اعظم مودی نے مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ بھارت میں پلاسٹک سرجری کا استعمال بھگوان گنیش کے ہاتھی کا سر اس کے انسانی دھڑ میں جوڑنے کے لیے کیا گیا تھا۔

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے، کہ گائے میں 80فی صد انسانی وصف ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ مشور ہ وزیر خارجہ سشما سوراج کو دیا کہ نہیں، جو پچھلے سال گردہ ٹرانسپلانٹ کیلئے ڈونر ڈھونڈ رہی تھی۔ اگر گائے 80فی صد انسان ہے تو ان کو گائے کا گردہ بھی لگایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح راجستھان کے وزیر تعلیم واسودیو دیونانی کا کہنا ہے، کہ گائے اکیلا جانور ہے ، جو سا نس کے ساتھ آکسیجن باہر چھوڑتی ہے۔

کانگرس نے 2003ء میں شملہ میں منعقد کیے گئے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے مذہبی منافرت پر مبنی مواد ختم کرنے کے لئے کام کرے گی ۔ آر ایس ایس سے نظریاتی طور پر نمٹنے کیلئے زمینی سطح پر ایک فورس بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔

2014میں کشمیر میں انتخابات کی کوریج کے دوران میں نے دیکھا، کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقہ چناب ویلی میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے ورکروں نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لے کر دیہاتوں میں رات دن ہندوتوا کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔بھارت کے اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا وہ ان کے ذریعے ادا کئے گئے ٹیکسوں پر ہی زندہ ہیں۔

یہ مذہبی منافرت کاایسا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈا یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔اگر واقعی بھارت میں شدت پسندی اور اقلیتوں کے تئیں اکثریتی فرقہ کی بیزاری پر لگام لگانی ہے تو اس نفرت کے بنیادی ماخذ یعنی نصابی کتب کو بدلنا ہوگا اور علم کو معروضی حیثیت میں معصوم ذہنوں تک پہنچانا ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغل دور میں ہی بھارت ایک اقتصادی سپر پاور تھا۔ 1700 میں دنیا کی معیشت یعنی جی ڈی پی میں متحدہ ہندوستان کا حصہ 24.4فیصد ہوتا تھا جو اب گھٹ کر 6.3فیصد ہے۔عالمی صنعتی پیداوار میں اسکا حصہ 25فیصد ہوتا تھا جو اب 3.1فیصد ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے