مہذب سماج کی تشکیلی ضروریات پر ایک اہم ورکشاپ

فرقہ وارانہ اختلافات کے پس منظر میں شر و فساد اور قتل و غارت ہمارے سماج کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور بجائے اس کے اثرات و مضمرات میں کمی آنے کے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے دائرے میں وسعت اور تاثیر میں مزید شدت آتی جا رہی ہے۔ علم و معلومات کی دنیا میں آنے والے خیرہ کن انقلاب نے انسانی شعور کو جس طرح ایک نئی جہت سے اپنا اسیر بنالیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے پرانے تصورات، خیالات اور نظریات نئے حقائق کے آئینے میں مسلسل باطل ثابت ہو رہے ہیں، اس کا تقاضا تو یہ ہے آج کا انسان زیادہ مہذب، با شعور، تحمل مزاج اور برداشت کا حامل و خوگر ہو اور دنیا میں لڑائی جھگڑے، جنگ اور قتل و قتال کا باب بند ہو، مگر علم و شعور اور فکر و نظر کی اس بے پناہ ترقی کے باوجود حال یہ ہے کہ تنازعات ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور اختلافات کی دنیا ہے کہ مسلسل جنگ و جدال کو جنم دے رہی ہے۔ اس کی وجہ در اصل یہ ہے کہ تمام تر تمدنی اور نظریاتی ترقی کے باوجود دوسروں کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ کی تنگی اور منفی اپروچ جوں کا توں قائم ہیں، اس لیے اختلاف ایک علمی سرگرمی کے طور پر متعارف ہونے کے بجائے مخالفت اور عناد کی بنیادوں کی پرورش کرتا آرہا ہے، چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کے منفی اثرات وسائلِ ضرب و حرب اور آلاتِ جنگ میں جدت کے پہلو بہ پہلو ماضی کے مقابلے میں بے پناہ ہوتے جا رہے ہیں۔

اختلافات کو مخالفت اور دشمنی کی راہ پر ڈالنے کا ایک بڑا محرک سیاسی و معاشی جبر بھی ہے۔ معاشی اور سیاسی ضرورت کے تحت ہی ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم اور ہمارا گروہ دوسروں سے مضبوط اور مقتدر ہوں اور نظمِ اجتماعی پر زیادہ سے زیادہ گرفت اپنے ہاتھ میں کر لیں۔ یہی خواہش جب عمل کی راہ پر آتی ہے تو مفادات کا ٹکراؤ کہیں مذہبی اور کہیں فرقہ وارانہ تصادم کی شکل میں سامنے آتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ بے چینی اور بے یقینی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ پاکستان ایک کثیر الثقافتی، لسانی اور مذہبی سوسائٹی کا حامل ملک ہے۔ یہاں سماج کی اکائیوں میں بڑے پیمانے پر فکری اور مذہبی تنوع پایا جاتا ہے، تاہم یہ تنوع اب تک اختلافِ رنگ و بو کے حسن میں نہیں ڈھل سکا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان فرقہ واریت کے سائیڈ افیکٹس سے ہمیشہ دو چار ہوتا آیا ہے۔

فرقہ واریت کے بھیانک اثرات کے تلخ تجربے کے پیش نظر حکومتی اور سماجی سطح پر اس بات کی کوششیں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ اختلافات ختم نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم یہ علمی دنیا تک ہی محدود رہیں اور عوام میں آکر انتشار اور نقض امن کی محرکات کو ہوا نہ دیں، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود ہنوز فرقہ واریت پوری شدت کے ساتھ نہ صرف موجود ہے، بلکہ بہت سے خارجی اور داخلی عوامل کے زیر اثر اس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں اختلافات کے سماجی دوریوں کی بنیاد بننے کی ایک بڑی وجہ کمیونی کیشن گیب بھی رہی ہے، تاہم اب ذرائع مواصلات کی ترقی نے یہ گیب بھی پاٹ دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کے خیالات سے براہ راست آگہی کی سبیل پیدا ہوگئی ہے اور لوگ دوسروں کے بارے میں حقائق سے روشناس ہوکر پہلے سے زیادہ اس بات کے خواہش مند ہو رہے ہیں کہ ان میں سماجی دوریاں ختم ہوں اور وہ بقائے باہم کے اصولوں کی روشنی میں امن و سکون کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ لوگوں کی سوچوں میں در آنے والی اس تبدیلی کو اگر منظم شکل دی جائے تو ایک ہم آہنگ، روا دار اور تحمل آشنا سماج کی تشکیل زیادہ دور نہیں ہوگی۔

امن و استحکام کی اس عمومی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گزشتہ دنوں مجلس تحقیقات اسلامی (انٹرنیشنل ریسرچ کونسل فار ریلجیئس افیئرز) اور ادارہ امن و تعلیم (پیس تھرو ایجوکیشن) کے تحت کراچی میں مختلف مسالک کے علمائے کرام کے لیے ”اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان” کے عنوان سے ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ مذہبی لوگوں میں رائج نظام کے متعلق منفی تصورات کو کلیئر کرنے اور شکوک و شبہات کے ازالے کے ساتھ روا داری، سماجی ہم آہنگی، اختلاف رائے کے احترام کے فروغ اور اپنے بنیادی و شہری حقوق و فرائض سے آگاہ ہونے کے لیے یہ ایک سبق آموز پروگرام اور خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ اختلافات کو موجب فساد بننے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں معاہدوں، ڈیکلریشنز، ضوابط اخلاق سے لے کر بین المسالک ہم آہنگی سمینارز تک مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کی روایت موجود ہے، مگر اس ورکشاپ کا حصہ ہوتے ہوئے ہم نے بجا طور پر یہ محسوس کیا کہ فرقہ واریت کے مضر مضمرات کے سدباب کے لیے جتنا موثر یہ سہ روزہ تربیتی ورکشاپ رہی، اتنا نتیجہ خیز کوئی اور طریقہ کار نہیں ہوسکتا۔

ورکشاپ کے دوران تین دن صبح سے شام تک منتخب دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ علماء و اسکالرز کو ایک دوسرے کے خیالات و نظریات سے براہ راست آگاہ ہونے کا دوستانہ ماحول فراہم کیا گیا اور مشترکہ عملی سرگرمیوں کے ذریعے سوسائٹی کی مشترکات کو اجاگر کیا گیا۔پاکستان ایک جمہوریہ ہے، مگر شہریوں کی اکثریت اب تک جمہوریت کے بنیادی فلسفے کے بارے میں ہی تضاد فکری سے دو چار ہے۔ ورکشاپ کا مرکزی مقصد رائج نظام اور اس کی محتویات پر پائے جانے والے اس تضاد کو کلیئر کرنا تھا، چنانچہ گروپ ایکٹویٹیز اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے جمہوریت کے عناصر، اقدار اور بنیادوں اور ان کی ضرورت، اہمیت اور ہماری زندگیوں پر ان کے اثرات کو واضح کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے پیپر چارٹس اور ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی مدد لی گئی، جو تربیت کا بہترین عملی نمونہ اور شرکا کے خیالات کو مربوط و منظم کرنے کا ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوئی۔ بلاشبہ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ورکشاپ کے اختتام پر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسی ورکشاپس کا مختلف مسالک کے مدارس کی حدود میں بھی انعقاد کیا جائے، تاکہ جہاں جہاں اس ضمن میں غیر ضروری شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں واضح فکر دی جائے، جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ اختلافات کو تنوع کی تہذیب میں بدلنے کا شعور مستحکم ہوگا اور ہم بحیثیت قوم بہت سے غیر ضروری مباحث میں الجھ کر اپنے وقت اور توانائی کو ضائع کرنے سے بچ جائیں گے۔

دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ممتاز فاضل جناب اسرار مدنی معروف تحقیق کار اور مجلس تحقیقات اسلامی (آئی آر سی آر اے) کے سربراہ ہیں، ورکشاپ میں علماء کی تربیت کے لیے ان کی مرتبہ کتاب ”اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان” منتخب کی گئی تھی۔ آئی آر سی آر اے کے ڈائریکٹر جناب تحمید جان الازہری جو ایک لائق فاضل اور روشن فکر محقق ہیں، نے کتاب کے ضروری مباحث پر نہایت پر مغز لیکچر دیے اور مکالمے کروائے۔ ورکشاپ میں مختلف ضمنی اور متعلقہ موضوعات پر ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، جناب فاروق قریشی، مولانا سید احمد یوسف بنوری نے بھی جاندار مقالے پیش کیے، جنہیں شرکا نے بے حد پسند کیا۔ ورکشاپ کے تیسرے اور آخری دن ادارہ امن و تعلیم کے سینئر منیجر جناب مجتبیٰ راٹھور نے دو دنوں میں ہونے والی بحثوں کا ملخص پیش کیا اور فکر و نظر کے نئے در وا کیے۔ امید ہے شعور و آگہی کا یہ سفر مختلف دائروں میں انسانی بنیادوں پر ایک مہذب اور روادار معاشرے کی تشکیل کی منزل کی طرف اپنی پیش رفت جاری رکھے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے