امریکی حکومت کا پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کا پتہ بتانے والے کے لیے 50 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ملا فضل اللہ کی قیادت میں پاکستانی طالبان نے امریکی مفادات کے خلاف کیے گئے بیتشر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بیان کے مطابق ان حملوں میں آرمی پبلک سکول، پشاور، کا حملہ بھی شامل ہے جس میں 148 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
اس کے علاوہ انھوں نے سنہ 2010 میں ٹائمز سکوئر نیویارک میں حملے کی ناکام کوشش کی بھی۔

ملا فضل اللہ سوات میں طالبان کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے بھی ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے امن کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر بھی قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔

ملا فضل اللہ کے گروپ نے دیر میں پاکستان فوج کے میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔امریکہ نے انھیں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

ملا فضل اللہ کو 2013 میں حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ چنا گیا تھا۔ امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو بھی عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا جس کے بعد انھیں ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔

سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق طالبان کی ذیلی شاخ جماعت الحرار کے سربراہ عبدالولی اور نیٹو کے قافلوں پر حملہ کرنے والے منگل باغ کے بارے میں خبر دینے والے کے لیے 30 لاکھ ڈالر کے انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ امریکہ سے بات چیت کے لیے واشنگٹن گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان سمیت پاکستان حکام امریکہ سے انسداد دہشت گردی کے معاملے میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کریں گے۔
امریکہ اور افغانستان پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے دیگر جنگجوؤں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات سے انکار کیا ہے۔

امریکہ نے جنوری میں پاکستان کی 20 ارب ڈالر کی امداد بھی معطل کر دی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔بیان کے مطابق پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) نے امریکی سرزمین پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے