چئیرمین، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ ۔۔ تازہ ترین صورتحال

سینیٹ کے "گھوڑا زدہ” انتخابات کا دوسرا اور اہم مرحلے اپنے پورے زور شور سے جاری ہے۔ پارلیمانی جماعتیں چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ منتخب کرانے کیلیے پورا زور لگا رہی ہیں اور جوڑ توڑ جاری ہے۔ حکمران اتحاد کو اکثریت کا دعوی ہے تو اپوزیشن جماعتیں بھی فتح کے دعوے کر رہی ہیں۔ نمبر گیم کو دیکھا جائے تو حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری ہے لیکن خفیہ ووٹنگ میں "گھوڑے” اپنا چمتکار بھی دکھا سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپوزیشن جماعتیں حکمران اتحاد کا راستہ روکنے کے دعوے کر رہی ہیں۔ فاٹا کے آزاد ارکان سے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ملاقاتوں کے کئی ادوار ہو چکے ہیں تو دوسری جانب بلوچستان سے آزاد ارکان پر عمران خان اور آصف زرداری واری واری جا رہے ہیں۔۔

عمران خان نے اپنے ارکان کو وزیر اعلی بلوچستان کے سپرد کرکے اعلان کیا کہ آپ 21 لوگ پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آزاد ہیں لیکن سوشل میڈیا پر بے تحاشا تنقید کے بعد 24 گھنٹے سے بھی پہلے ہی اپنا فیصلہ تبدیل کیا اور اعلان کیا کہ ان کی جماعت ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی بلکہ پیپلز پارٹی بلوچستان سے چئیرمین اور فاٹا سے ڈپٹی چئیرمین کے امیدواروں کی حمایت کرے اور اپنا امیدوار نامزد نہ کرے۔ بظاہر یہ اعلان حکمران اتحاد کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے لیکن ابھی تک زرداری نے بھی سارے پتے شو نہیں کیے جس کا انتظار کیا جانا چاہیے۔

بظاہر صورتحال اس طرف جا رہی ہے کہ ن لیگ اگر بلوچستان سے میر حاصل بزنجو جیسا امیدوار نہ لائے تو اسے راجہ ظفرالحق یا کسی بھی دوسرے امیدوار کیلیے ضرورت سے کہیں زیادہ ووٹوں کا اہتمام کرنا ہوگا جوکہ بظاہر آسان نہیں بلکہ بہت مشکل کام ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اگر اپنا امیدوار لاتی ہے تو تحریک انصاف کی حمایت سے محروم ہوکر مقابلے سے یکسر باہر ہو جائے گی۔ اب اصل میں آصف زرداری کی سیاست کا امتحان ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ووٹ حاصل کرنے کیلیے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ اور کیا تحریک انصاف ایک بار پھر اپنا فیصلہ تبدیل کرے گی؟

اس وقت چئیرمین سینیٹ کیلیے تین فریق بڑے اہم ہو گئے ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام ف ، فاٹا آزاد ارکان اور ایم کیو ایم ۔۔ تحریک انصاف کی حمایت نہ ملنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کو ان تینوں کی مکمل حمایت حاصل ہو تو وہ ن لیگ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے اور اگر ان تینوں کی حمایت ن لیگ کیساتھ رہی تو پھر نون کو ستے خیراں ہی نظر آ رہی ہیں۔

یہ سارا تجزیہ بظاہر ہونے والی سیاسی پیش رفت میل ملاقاتوں اور سیاسی راہنماوں کی گفتگو کی روشنی میں کیا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ قوتیں جنھوں نے بلوچستان میں حکومت کا تختہ الٹا اور 500 ووٹ لینے والے شخص کو وزیر اعلی بنوا دیا اپنا پورا زور لگا رہی ہیں کہ وہ حکمران اتحاد کا راستہ روکیں ۔۔ اس حوالے سے 10 مارچ کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے کل ہونے والی بظاہر اور پوشیدہ سیاسی پیش رفتیں چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب کے حوالے سے پانسہ پلٹ سکتی ہیں۔۔ حکمران اتحاد کو اپنے گھوڑے باندھ کر رکھنے اور خوب رکھوالی کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے