مسئلہ شام اور پروپیگنڈہ

ظلم ایک قبیح عمل ہے۔ ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کرنا پاک فطرت انسان کی علامت ہے ۔ لیکن جن لوگوں کی فطرت مختلف وجوہات سے زنگ آلود ہوچکی ہوتی ہے وہ اپنی فطرت کے خلاف ہر کام کرنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں، وہ ظالم کی حمایت اور مظلوم کی مخالفت کرنے میں کوئی عیب محسوس نہیں کرتے ، باطل کو حق اور حق کو باطل کا لباس پہنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ، جھوٹ کو شیریں الفاظ میں سچ بنا کر پیش کرنا جن کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے ۔

آج کی دنیا میں لوگوں کو حقائق سے دور رکھنے کے لئے زنگ آلود فطرت کے حامل افراد کا کامیاب ترین حربہ پروپیگنڈہ ہے۔ سوشل میڈیا کی برق رفتار ترقی نے جہاں پاکیزہ فطرت اور عقل سلیم کے مالک انسانوں کو تحقیق اور معلومات تک رسائی حاصل کرنے کو سہل بنا دیا ہے وہیں وہ عقل اور فطرت کی آواز کو کچل کر خواہشات نفسانی کے دام میں اسیر ہونے والے افراد کو پروپیگنڈے پھیلاکر سادہ لوح انسانوں کو گمراہ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوئی ہے ،ایسے میں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر تعلیم یافتہ افراد، خواہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں بصیرت کے ساتھ حالات حاضرہ سے آگاہ رہیں ۔

* "قارئین کرام "* اگر آج کل سوشل میڈیا پر پوری شد ومد سے پھیلائیے جانے والے پروپیگنڈوں کی ایک جھلک دیکھنا چائیں تو وہ شام کی صورتحال ہے ۔ داعشی فکر سے متاثر افراد نے پوری منصوبہ بندی اور منظم طریقے سے شام کے بارے میں حقائق سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے مہم چلائی ہوئی ہے ۔ وہ خوبصورت عنوان یعنی *حقوق بشر* کے زیر سایہ عوام کو گمراہ کرنے میں کوشاں ہیں ۔فیس بک ، واٹس ایب وغیرہ پر شام کی تباہ شدہ عمارتوں ،خون سے رنگین ہونے والےچھوٹے چھوٹے بچوں ،عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں وناانصافیوں کی ویڈیوز اور تصاویر تسلسل سے شائع کی جارہی ہیں جس کا ہدف فقط یہ ہے کہ سادہ لوح عوام کو بشار الاسد سے متنفر کیا جائے اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کیا جائے کہ شامی عوام پر ہونے والے مظالم کا ذمہ دار بشار الاسد ہیں ، یوں وہ جعلی ویڈیوز اور فرضی تصویریں میڈیا پر وائرل کرکے بشار الاسد کو ایک خطرناک ڈکٹیٹر ظاہر کرنے کی سعی لا حاصل کی جارہی ہے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شام میں ہونے والے ظلم وستم ، املاک کی تباہی، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اصل ذمہ دار استعمار کی خادم اعلی داعش ہے ۔مسلمانوں کے حقیقی دشمن امریکہ اور اسرائیل نے بے تحاشا ڈالر خرچ کرکے پوری دنیا سے چن چن کے خونخوار دہشتگردوں کو جمع کیا گیا، ترکی، اردن کے بیس کیمپس میں انہیں تربیت دی گی، افرادی اور مالی وسائل سعودیہ، قطر نے مہیا کیے، یوں انہوں نے داعشی گروہ کو بنا یا ،منظم کیا اور اپنے بڑے برے عزائم کی تکمیل کے لئے اسےعراق اور شام میں بھیجا گیا ۔اس نجس خونخوار گروہ نے عراق اور شام کے لاتعدادبے گناہوں مسلمانوں کو خون ناحق کے سمندر میں ابدی نیند سلادیا گیا ، اسلام کے نام پر انسانیت کے ساتھ وہ ظلم کیا گیا جس کی نظیر تاریخ بشریت میں بہت کم نظر آتی ہے ،بہت سوں کو زندہ جلادیا گیا ،چھری سے ذبح کیا گیا ۔۔۔۔۔لیکن اسلام کے حقیقی پاسبان شخصیات کی بصیرت ، دور اندیشی ان کی ہدایات اور رہنمائی کی بدولت عراق اور شام دونوں میں داعش کی ذلت آمیز شکست ہوئی، بشار الاسد نے کفار سے منہ موڑ کر اسلام کے حقیقی علمبرداروں سے رہنمائی لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے داعش پر فتح مل کر پوری دنیا میں سرخرو ہوئے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ بشار الاسد نے داعش کے مقابلے میں پوری استقامت کا مظاہرہ کیا گیا اور بالآخر داعش سمیت امریکہ اور اسرائیل کو مایوسی سے دوچار کیا گیا ۔یہاں ذرا روک کر میں قارئین کرام سے یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ اس نکتے پر ضرور سوچیں کہ جو لوگ شام کے مسلمانوں کی مظلومیت پر اس قدر شور مچاتے ہیں انہیں یمن کے مسلمانوں کی محرومی اور ظلم ستم نظر کیوں نہیں آتے ہیں ؟کیا واقعتا یہ متضاد سوچ نہیں کہ شام کے مسلمانوں کے بارے میں تو وہ صبح شام وایلا کریں ، ہر روز ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کرکے عوام کوان کی مدد اور نصرت کی دعوت دیں، مگر یمن کے نہتے عوام کے بارے میں چب کا روزہ رکھیں؟ کیا یمن کے عوام مسلمان نہیں؟ کیا یمن کے مردوں، بچوں اور عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم شام کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم سے کم تر ہیں؟ کیا سعودی عرب یمن کے معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کا بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ قتل عام نہیں کیا جارہا ؟ کیا سعودی عرب نے یمن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد نہیں کیا ہے ؟ ۔م

عتبر ذرائع کے مطابق یمن پر سعودی عرب کے بھیانک جرائم اور مجرمانہ ہوائی حملوں کے نتیجے میں 35 ہزار افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ،سعودی عرب نے جنگی اور بھیانک جرائم میں اسرائیل کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ کیا یہ خندہ دار نہیں کہ شام میں ” آمرانہ” حکومت کو گرانے کا اعلانیہ مطالبہ وہ ریاستیں اور حکمران کر رہے تھے جہاں سو سو سال سے ایک ہی خاندان حکومت پہ قابض تھا یا جمہوریت کے نام پہ بد ترین ڈکٹیٹر شپ مسلط تھی؟بہر صورت مسلمانوں کو شام کے حوالے سے میڈیا پر پھیلائے جانے والے پروپیگنڈوں سے آگاہ رہنا ضروری ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے