مبشر علی زیدی کے چودہ نکات

پاکستان کو ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ

مابعد الطبیعات نظریات کو سیاسی نظام سے خارج کردیا جائے۔ صرف عمل کی دنیا میں جیا جائے۔

تعلیم اور دفاع کا بجٹ برابر کردیا جائے۔

کسی عبادت گاہ، مذہبی جماعت اور فوجی ادارے کو کاروبار کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ وہ ترجیح کی بنیاد پر مراعات حاصل کرکے عام کاروبار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

مقتدر حلقوں کی سرپرستی میں چلنے والی تمام مسلح تنظیموں کو غیر مسلح و منتشر کیا جائے۔

پناہ گزینوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے یا انھیں شہریت دے کر بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی جائے۔

صرف اپنے ملک کے عوام کا مفاد دیکھا جائے۔ ہماری سرحد سے باہر کے لوگ اپنے مسائل خود حل کرلیں گے۔

آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کو تین الگ صوبے بناکر ریاست میں ضم کرلیا جائے۔ وہ مہمان نہیں ہیں، ہمارے بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دسترخوان پر روٹی کھا رہے ہیں۔

ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کو دو چار عشروں کے لیے منجمد کردیا جائے۔ اس صورت میں مذاکرات کے لیے ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ایٹمی ہتھیاروں سے چھٹکارا پایا جائے۔ ان کی موجودگی میں کسی ترقی پذیر ملک کا فلاحی ریاست بننا ممکن نہیں۔ کسی مسلمان ملک کا ایٹمی قوت ہونا ضروری ہے تو اپنے ہتھیار عالمی طاقتوں کی رضامندی سے کسی سمجھ دار امن پسند مسلمان ملک کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔

کسی ایک بڑے ملک کی دوستی پر انحصار نہ کیا جائے۔

دفاع کے بجائے سفارتکاری اور قرضوں کے بجائے سرمایہ کاری لانے پر توجہ دی جائے۔

ہر عوامی نمائندے، ہر بیوروکریٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ہر جج اور بریگیڈئیر رینک سے اوپر کے ہر جرنیل کا بایوڈیٹا اور اثاثوں کی تفصیلات انٹرنیٹ پر مشتہر کی جائیں تاکہ پتا چلے کہ کس نے کیا کارنامے انجام دے رکھے ہیں اور کس بنیاد پر اعلیٰ عہدے تک پہنچا ہے۔

ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز پر پابندی لگائی جائے۔ ان کا کام قانون سازی ہے۔ تمام فنڈز بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے جائیں۔

پوری معیشت کو دستاویزی بنایا جائے۔ ٹیکس کا دائرہ خودبخود بڑھ جائے گا۔ زراعت سے آمدن وصول کرنے والوں سے اِنکم ٹیکس لیا جائے۔

دانش وران قوم اپنا دل اچھا کرنے کے لیے کمنٹس میں مزید نکات کا اضافہ کرسکتے ہیں کیونکہ ہونا ہوانا تو کچھ ہے نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے