کامیابی محنت یا قسمت کا کھیل ؟

قاسم علی شاہ کی کیرئیر پلاننگ پر لکھی گئی کتب کا حسن یہ بھی ہے کہ ان کے عنوانات کی ترتیب انسانی فطرت سے قریب ہے ۔ایک طالبعلم کو کیرئیر پلاننگ کا آغاز کن نکات پر کرنا چاہیے اور اس کو انتہا تک کیسے لے جانا ہے کے عین مطابق موضوعات کی ترتیب ان کے اچھے نبا ض ہو نے کی گواہی دیتی ہے. مایوسی اور جامد سوچ کے خود ساختہ مرض میں مبتلا لوگوں کیلئے یہ تحاریر اکسیر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

زندگی میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں افراد کیلئے کتاب ’’کامیابی کا پیغام ‘‘ کے چند مزید اقتباس پیش ہیں ۔۔۔زندگی کے تمام شعبوں میں توازن ہی حقیقی کا میابی ہے۔۔۔کئی لوگ دین اور عبادت کی طرف اس طرح راغب ہوجاتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں وہ فقط تبلیغ کو عبادت سمجھ لیتے ہیں حالانکہ بیوی بچوں کو محنت سے حلال رزق کما کر کھلانا نا بذات خود بہت بڑی عبادت ہے ۔دنیا کے کاموں میں اگر آپ کی نیت اچھی ہے تو اس نیکی کررہے ہیں چاہے آپ دکان پر بیٹھے ہوں ،دفتر میں موجود ہوں ،پڑھار ہے ہوں یا پڑھ رہے ہوں ،دین اور دنیا الگ الگ نہیں ہیں بلکہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے ۔

دنیا میں ہر وہ کام جو آپ اچھی نیت سے کررہے ہیں آخرت میں اس کا صلہ پائیں گے اس لیے صرف عبادت میں گم ہوجانا ایک غیر متوازن زندگی کی علامت ہے اس لیے آپ اپنے کام کو عبادت بنائیں۔۔۔اسلام پیسے کمانے کو برا نہیں سمجھتا لیکن پیسے کی محبت کو برا ضرور کہتا ہے ۔لوگ پیسے کماتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام شعبوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ،ان کیلئے بیوی ،بچے ،صحت ،سکون اور رشتے دار کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔وہ زندگی کو دو جمع چار بنا کررکھ دیتے ہیں ۔صرف پیسہ کا میابی نہیں ۔بڑے بڑے سیٹھ پیسے کی فراوانی کے باوجود چار چار بیماریوں میں مبتلاہوتے ہیں ۔پیسے کے لالچ سے انسان کی عمر میں برکت ختم ہو جاتی ہے ۔اگر پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے تو امیروں کو رات کو سکون کی نیند کیلئے دوائیاں نہ کھانا پڑتیں.. ۔اچھا حافظہ اور ذہانت رکھنے والے بے شمار نوجوانوں کی شخصیت کتابوں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ ہیرو کی بجائے زیر و ہوتے ہیں.. ۔

کلاسز میں دیکھا گیا ہے کہ عموماََ بہت زیادہ کتابی کیڑے کے دوست اور تعلقات بہت کم ہوتے ہیں ایسے نوجوان سماجی لحاظ سے بیمار ہوتے ہیں ۔ڈگریوں کے پلندے اور میڈلز بھی ان کو عملی زندگی میں ایک کامیاب شخص کی حیثیت نہیں دے پاتے۔۔۔اگر آپ کے مقاصد اور اہداف صرف ایک شعبہ کے حوالے سے ہیں تو آپ ناکام اور غیر منظم شخصیت کے مالک بن جائیں گے ۔زندگی کے اہم ترین شعبہ جات یہ ہیں۔۔۔۔

۱- مالیات
۲- صحت
۳- خاندان
۴- ۔کیرئیر
۵- سروس یا خدمت
۶۔ آپ کی اپنی ذات
۸۔ دین اور روحانیت

اگر آپ ان میں توازن برقرار نہیں رکھیں گے تو آپ حقیقی کامیابی کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہوپائیں گے ۔۔۔آپ کے تمام شعبوں کی کامیابیاں کسی کام کی نہیں جب آپ کا مالک (اللہ تعالیٰ ) ہی آپ سے راضی نہیں ۔اپنی کامیابی مل جائے تو اس مالک کا شکر ادا کرنے کیلئے اس کی عبادت کریں ۔ان تمام شعبوں کا توازن ہی ہمیں اندرونی سکول کا احساس اور حقیقی خوشی سے آشنا کروائے گا۔۔۔کامیابی اور خوشحالی حاصل کرنے سے پہلے کسی بھی کارنامے کے حوالے سے یہ یقین کر ناکہ میں یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا ہوں آپ کو ہمیشہ ناکام کرتا ہے ۔ اگر آپ کو خود پر یقین نہیں تو دنیا آپ پر کیسے یقین کرگے گی ۔۔۔

آپ خود کو منفرد نہیں مانتے تو لوگوں میں آپ کی انفرادیت کبھی ظاہر نہیں ہوگی ۔۔۔اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ کامیابی محنت سے نہیں قسمت سے ملتی ہے تو آپ محنت کیلئے کبھی تیار نہیں ہونگے ۔قسمت کا انتظار کرتے ہوئے عمر گنوادیں گے اور یہ ایک یقین آپ کو ناکام کردے گا۔۔۔آپ کے عقائد بننے میں درج ذیل محرکات کا عمل دخل ہوتا ہے ۔۔۔۱۔ابتدئی ماحول :۔ بچہ جو کچھ دیکھتا ہے اس پر یقین کرلیتا ہے ایک بچے کے پاس درست انتخاب کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے اس کو فراہم کردہ ماحول اس کے نظریات اور عقائد میں اپنا حصہ ڈال دیتا ہے ۔۔۱۔والدین اور رشتے دار :۔ والدین کا کردار بچے کی شخصیت اور نظریات کا لازمی جزو بن جاتا ہے ۔بے شمار والدین اپنے بچے کو نااہل سمجھتے ہیں اس لیے وہ بار بار اس کو احمق ،بے و قوف ،نالائق اور ناسمجھ کہہ کر اس کے اندر یقین پختہ کردیتے ہیں کہ وہ احمق اور نالائق ہی ہے والدین کو چاہیے کہ بچے کو محبت دیں اور تنقید کا نشانہ بنائیں ۔۔۔میڈیا ۔

آپ جو کچھ بار بار سنتے ہیں اس پر آپ کا یقین پختہ ہوجاتا ہے ۔میڈیا ٹی وی ،ریڈیو ،اخبارآپ کے عقائد بنانے والا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا میڈیا صرف تفریح فراہم کرتا ہے یا سیاسی تبصرے جسکی وجہ سے نو جوانوں کی شخصیت سازی کا عمل نہیں ہورہا ۔میڈیا کے شعبے نے ابھی اصل مشن کو ٹارگٹ نہیں بنایا جس میں نواجوان کی شخصیاتی ترقی اور کامیابی کے نظریات اور افکارکا پرچار شامل ہے۔۔۔دوست احباب۔آپ کے قریبی لوگ آپ کے نظریات اور عقائد پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں کیونکہ آپ کا ان سے اعتماد کا رشتہ بنا ہوتا ہے ۔اس لیے آپ ان کی باتو ں کی جانچے بغیر درست مان لیتے ہیں ۔۔۔اشتہارات ۔آپ کی ذات سے متعلق لاتعداد فرسودہ اور بے سود عقائد ان اشتہارات کی وجہ سے بن جاتے ہیں جو کو آپ روز پڑھتے ہیں ۔

اس کی بہترین مثال نیم حکیم اور عامل باووں کے اشتہارات ہیں جو ہر اخبار اور دیوار کی زنیت بنے ہوئے ہیں اور ان کی تباہ کار ی یہ ہے کہ ہمارے ملک کا ہر نوجوان خود کو کمزور و ناتواں سمجھتا ہے اور دوسری عورت کا اس بات پر یقین مستحکم ہوچکا ہے کہ مجھ پر جادو کیا گیا ہے۔۔۔واقعات،تجربات اور حادثات ۔ہماری زندگی کے تمام واقعات پر ہمارااختیار نہیں ہوتا ۔وہ واقعہ جس کو آپ اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھتے ہیں یا کسی کی زبانی سنتے ہیں اس کے نتیجے پر آپ کا یقین پختہ ہوجاتا ہے ۔۔۔اساتذہ۔آپ کی کامیابی میں بہت بڑا کردار آپ کے استاد ،گرو ،مرشد ،رہبر اور منٹور کا ہے ۔

کیونکہ آہ جس کو آئیڈل مانتے ہیں اس کی بتائی ہوئی بات آپ کیلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر استاد نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کردے کہ وہ لائق ہوسکتاہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔زیادہ تر لوگ بینائی کی بجائے اعتماد اور یقین کے سہارے چلتے ہیں آپ کا یقین ہی روشنی دکھانے والا نہ ہو تو تاریکی آپ کا مقدر بن سکتی ہے ۔۔۔زیادہ تر لو گ بینائی کی بجائے اعتماد اور یقین کے سہارے چلتے ہیں آپ کا یقین ہی روشنی دکھانے والا نہ ہو تو تاریکی آپ کا مقدر بن سکتی ہے ۔۔۔۔

بے شمار لوگ ماضی کے واقعات ،تلخیوں اور ماضی سے بندھی ہوئی رسی کو نہیں کاٹتے اس لیے ماضی بھی ان کا پیچھا نیں چھوڑتا ۔آپ خود بتائیے کہ اگر کسی شخص نے آگے بڑھنا ہو اور وہ منزل کی طرف کمر کرکے الٹے قدم چلنا شروع ہوجائے تو کیا وہ منزل تک پہنچ جائے گا ۔کبھی نہیں۔زندگی کے ابتدئی ایام کی غلطیا ں بہت اہم ہوتی ہیں ۔یہ ذہنی اور جذباتی طور پختہ کردیتی ہیں ۔۔۔آپ کی اصل دولت ’’آج‘‘ہے ۔دوسرے الفاظ میں موجود ہ وقت ( حال ) کیوں کہ آپ حال کو بدل کر اپنے مستقبل کو شاندار بنا سکتے ہیں ۔۔۔

ہر لمحہ ،ہردن اور ہر سال آپ کو اللہ حافظ کہہ رہا ہے ۔۔۔لہذا آج اور ابھی ہی ماضی کی تمام تلخیوں کو بھول کر پگلتی برف کی مانند تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کو کار آمد بنائیے ۔یہ مت سوچیئے کہ آپ عمر کے کسی حصے میں ہیں ،کن مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں ،حالات موافق نہیں ہیں ،بس اپنے اندر کے سوئے ہوئے انسان کو بیدار کریں یہ آپ کو توانائی فراہم کرے گا سوچ کو بدلیے ،زندگی خود باخود بدل جائے گی۔
**

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے