جوتے

بات جانے کہاں سے شروع ہوئی تھی، آخری بات جو مجھے یاد تھی، وہ مری روڈ راولپنڈی پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے سنے تھے ۔۔ پھر میں آگے بڑھ گیا تھا۔ میں نے پھر دیکھا تھا کہ سابق صدر ایوب خان کے جانے کے بعد کچھ آنکھیں نم تھیں، اور اس کی آمریت کے بارے میں معاشی اشارعیے کچھ اور کہہ رہے تھے۔ لیکن میں نہیں رویا ۔

کسی نے اپنی غلطی پر معذرت بھی نہیں کی تھی۔ پھر ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی ملی، مجھے افسوس ہوا تو میں نے کچھ لوگوں کو مٹھائی بانٹتے دیکھا، میں نے تب میاں محمد بخش کو نہیں پڑھا تو جو کہہ رہے تھے، دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، مجھے نہیں یاد دوسرا مصرعہ کیا تھا، میں رکا ، نہ ہی کوئی ندامت ہوئی۔ میں نے بہت سفر کیا ہے، میں نے دیکھا کہ ایک آمر ہی سہی ، سابق صدر پاکستان کا طیارہ گرا تو بھی انگلیاں دانتوں میں دبا لی گئیں، باپ کی پھانسی کے بعد مغرب سے تعلیم حاصل کرکے لوٹنے والی پنکی جب پولیس وین میں بیٹھی تھی، غیرت کی روح کانپ گئی ہوگی، لیکن مجھے نہیں معلوم ۔

غیرت کہاں تھی، جب طرح طرح کی باتیں خاتون وزیراعظم سے منسوب کی گئیں، کبھی ہیلی کاپٹر سے پھرے گرے۔ اور تو اور کسی ووٹ کی پرچی کو اس سے بڑی کیا توہین ہوگی، کہ حاضر سروس وزیراعظم کو یک جنبش قلم ریٹائر کردیا جائے ۔ وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہے، لیکن اس پر بوٹوں کی جتنی آوازیں آئیں وہ توہین ہی تھیں، وہ ایوب کتا ہائے ہائے کے نعروں کی صدا سے کسی طور کم نہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ عمران خان کو طلباء نے ہی اٹھا کر پھینک دیا۔

مار کٹائی بھی ہوئی، لیکن بیچ بچاؤ ہوگیا، ابھرتا ہوا نوجوان لیڈر، پھر ارباب غلام رحیم کو جوتا پڑگیا تو کیا ہوا؟ آمر پرویز مشرف کی طرف جوتا اچھالا گیا تو کیا ہوگیا، نوازشریف پر جوتا پھینک دیا گیا تو کون سی قیامت آگئی، میں نے پہلے کبھی دکھ نہیں کیا تو اب کیوں؟ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی، احمد قصوری کا بھی تو منہ کالا کیا گیا تھا۔

وجہ کوئی بھی ہو جوتا انتقام ہے، سیاہی جواب ہے، کرپشن ، چور لٹیرے ڈاکو، کو بھی یہی ، سیاستدان کوبھی، آمر کو بھی، اچھے برے کی تمیز نہیں، جوتے، سیاہی۔ لیکن یہ آج کیوں ، یہ جوتے جو آج پڑرہے ہیں، ان کی بنیاد ایوب خان کے خلاف لگے نازیبا نعرے ہی ہیں، قوم جب تک ووٹ سے احتساب نہیں سیکھے گی، جوتے ہی مارے گی، اور جوتے مارنے والی قوم کو جوتے کھانے والے حکمران ہی ملیں گے۔ جب ووٹ سے سیاستدانوں کو انتقام ملے گا، اور ڈبوں سے ووٹ کی پرچیاں مسترد کریں گی تو کرپٹ مافیا خود ہی صاف ہوجائے گا، وقت لگے گا لیکن ایسا ہوگا ۔

قانون ہاتھ میں لے منہ پر جوتا مارنا یا کالک ملنا، قانون ہاتھ میں لے کر آئین معطل کرنا دونوں ہی ایک سے جرم ہیں، اور ان دونوں جرائم سے بچ کر انتقام لینا اور اصلاح کرنا ووٹ سے ممکن ہے، ایسا بھی ہو کہ کسی کرپٹ شخص کا سیاسی قتل بھی ہوجائے اور خون کے چھینٹے بھی نہ اڑیں، اور عوام کا دامن داغ دار بھی نہ ہو ۔۔۔ نادیدہ قوتیں چاہ کر بھی کوئی سازش نہ کرپائیں گی، ہاں جب عوام احتساب کرے گی، الیکشن کے روز تب ہی ریاست بنے گی ماں کے جیسی، ہر شہری سے پیار کرے گی، بصورت دیگر سو جوتے سو پیاز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے