جمہوری تاتاری اور کنٹرولڈ جمہوریت

ان کی نیتوں پر تو ہرگز شک نہیں لیکن ’’تھاٹ پراسیس‘‘ بری طرح مشکوک ہے کیونکہ ہمارے یہ مہربان گھسی پٹی اور رٹی رٹائی باتوں کے علاوہ اور کچھ سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں جیسے سینیٹ انتخابات پر کچھ نے ’’کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘‘ کا طعنہ دیا جبکہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایسا ہے تو سو فیصد صحیح ہے کہ اگر یہ جوتا مار جمہوریت بالکل ہی کنٹرول سے باہر ہو جائے تو قیامت آ جائے۔

یہ کوٹھے ٹپنی جمہوریت مادر پدر آزاد ہو کر مادر کو زندہ درگور کرنے کے بعد پدر کو آسان قسطوں میں بیچ دے۔ ابھی کنٹرولڈ ہے تو حال یہ کہ کرپشن اور نااہلی عروج پر ہے۔ اربوں سے کم کا سکینڈل ہی سنائی نہیں دیتا۔ میرٹ موت کے گھاٹ اتارا جا چکا، اداروں کو دیمک چاٹ چکی تو اگر اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دیا جائے تو تصور کریں یہ ملک اور قوم کا کیا حشر کرے۔ کیا ہمارے یہ سیاست کار واقعی اس قابل ہیں کہ یہ ملک آنکھیں بند کر کے مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ حشر نشر نہ کر دیں گے یہ جعلی جمہوریئے۔

ذرا اندازہ لگائیں یہ کس ’’جمہوری شہکار‘‘ کی شکست پر رو رہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جسے جنرل ضیاء الحق اپنا اوپننگ بیٹسمین کہا کرتا تھا۔ یہ شیر کا نشان چھیننے پر ماتم کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کبھی پیپلز پارٹی سے تلوار کا نشان بھی چھینا گیا تھا۔ بزنجو صاحب کو کس ایوان میں بیٹھتے ہوئے شرم آ رہی ہے؟ جس کے لئے ایک مفرور کو ٹکٹ دیا گیا اور ’’بولیوں‘‘ کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے، جمہوریت کی دہائی دے رہی ہے۔

ان کے رویے جمہوری ہوتے تو کیا عدلیہ کو سیاسی شخصیات کی تصاویر والے سرکاری اشتہارات پر پابندی عائد کرنا پڑتی کہ سندھ میں بے نظیر، مراد علی شاہ، بلاول’’کے پی کے‘‘ میں پرویز خٹک اور عمران خان کی تصاویر اشتہارات میں لگانے پر پابندی ہو گی تو کیوں؟ صرف اس لئے کہ انہوں نے اشتہاری لوٹ کھسوٹ کے بھی بازار گرم کر رکھے تھے۔ کوئی حساب تو لگائے کہ پنجاب حکومت نے گزشتہ تقریباً دس سال میں کتنے ارب روپے برباد کئے۔ جہاں پینے کو صاف پانی نہیں، ہسپتالوں میں دوا نہیں، بچوں کے لئے سکول نہیں، نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں، وہاں اربوں روپیہ اپنی تشہیر پر خرچ کرتے ہوئے ان کے دل نہیں پھٹتے کیونکہ ان کے سفاک سینوں میں دل نہیں تجوریاں ہیں۔

یہ سب وارداتیں نام نہاد کنٹرول جمہوریت کی کٹی ہوئی ناک کے نیچے ہو رہی ہیں تو لوگو! سوچو کہ اگر یہ ’’غیر کنٹرولڈ جمہوریت‘‘ ہو تو یہ عوام کے ساتھ کیا کریں؟ملکی وسائل کی اندھا دھند سرعام لوٹ مار تو چھوڑو کہ یہ جمہوری تاتاری تو عوام کو وہ کچھ دینے پر بھی تیار نہیں جو مفت ملتا ہے یعنی عزت، عزت نفس۔ وہاں بھی عدلیہ کو آنا پڑا کہ اٹھائو اپنے جمہوری بھانڈے ٹینڈے، یہ رکاوٹیں …..ختم کرو یہ غنڈہ گردانہ تجاوزات اور عوام کے رستے انہیں واپس کرو تو ذرا غور کرو اس جمہوریت کی اصل ذہنیت کیا ہے؟

یہ خود ہی بے تحاشہ مال نہیں بناتے، ٹیکس پیئر کے پیسے پر اپنی پروجیکشن ہی نہیں کرتے، اپنے چمچوں کڑچھوں، پروردہ درباریوں کو ہی نہیں پالتے قدم قدم پر عوام کی تذلیل و توہین بھی کرتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ سارا سفلہ پن جمہوریت اور اس مکروہ ترین جمہوریت کا حسن ہے اور اگر یہ حسن ہے تو ان سے پوچھو بدصورتی کیا ہوتی ہے؟یہی وہ بدکاری اور بدصورتی ہے جس کی وجہ سے اس آدم خور جمہوریت کے ’’جبڑے اور پنجے‘‘ باندھنے پڑتے ہیں۔

عزت چاہتے ہو تو اپنے رویے چیک کرو، اپنی فحش ادائوں پر غور کرو۔ جس دن تم نے اپنی بے لگام آوارہ خواہشوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، کنٹرولڈ جمہوریت خودبخود ہر کنٹرول سے آزاد ہو جائے گی۔جمہوریت خوبصورت اور نازک کانچ کے برتنوں کی دکان ہے جس میں کچھ لوگ بدمست ارنے بھینسوں اور پاگل ہاتھیوں کی طرح جا گھستے ہیں تو ظاہر ہے بندوبست کرنا پڑتے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ’’کسی بھی جماعت کو قومی خزانے سے اپنی سیاسی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

‘‘صرف اس لئے یہ کہنا پڑا کہ تم بے حسی اور ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل یہ کھلواڑ کئے جا رہے تھے۔ تجاوزات ہٹانے کا حکم بھی اسی لئے دینا پڑا کہ یہ سب تمہاری ’’سیکنڈ نیچر‘‘ بن چکا تھا۔ اپنی مریضانہ سوچ اور رویے ری وزٹ کرو، بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو بدلنے کی کوشش کرو کہ تم تو اپنے ہم وطنوں کے لئے غیرملکی غاصبوں اور آقائوں سے بھی ہزار گنا بدتر ثابت ہوئے۔غیرملکی آقائوں پر سب سے بڑا الزام یہی ہے ناں کہ وہ برصغیر کی دولت لوٹ کر باہر لے گئے لیکن تم نے تو ان کو بھی مات کر دیا۔

گندے گورے نے تو 90سالہ راج میں ’’رعایا‘‘ کو ریلوے سے لے کر نہری نظام تک، زرعی کالجوں سے لے کر میڈیکل کالجوں تک، نئے شہروں سے لے کر لا اینڈ آرڈر تک، عدالتی نظام سے لے کر میرٹ تک جانے کیا کیا کچھ دیا جبکہ تم نے 70سال میں جو کچھ کیا، وہ سامنے ہے اس لئے ڈھیٹوں کی طرح ٹویٹوں سے باہر نکل کر اپنے اپنے گریبانوں کے اندر جھانکو…..

تمہیں نئے جہان دکھائی دیں گے ورنہ پھر وہی شعیب بن عزیز کہاس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میںٹھنڈے دل اور دیانتداری سے سوچو انہیں یہ بات کیوں کہنی پڑی ہے کہ ’’الیکشن میں سارے کام بیورو کریسی کے سر پر ہوتے ہیں (کیا یہ غلط ہے؟) انہیں تبدیل کر کے دوسرے صوبوں میں بھیج دیں گے۔ ‘‘ یہ انتہائی مکاری سے سسٹم کے ریشوں، بافتوں اور ڈی این اے میں گھس بیٹھے جو بدترین جمہوریت دشمنی ہے۔ یقین رکھو جو زہریلا خون تبدیل نہ ہو سکے، اس کا بہایا جانا لازمی ہو جاتا ہے تمہیں بھی وقت بہا لے جائے گا، پیچھے صرف جینوئن جمہوریت رہ جائے گی….. اِن شاء اللہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے