ساحرکاسحرجوزمانوں پرطاری ہے

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے

ساحر نے اپنے فن کا ایسا جادو جگایا کہ آج تک لوگ ان کے سحر سے نہیں نکل سکے۔

ساحر کے یہ اشعار آج بھی چاہنے والوں کی زبان پر ہیں ۔

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
دل ابھی بھرا نہیں

اردو زبان کے مشہورومعروف شاعر ساحر لدھیانوی آٹھ مارچ انیس سو اکیس کو پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔انہوں نے بچپن اورجوانی میں بہت سختیاں جھیلیں ۔اپنی شاعری میں سماجی کی تلخ حقیقتوں کو نئے نئے زاویوں سے پیش کرتے تھے۔ مثلاً اپنے زمانہٴ طالب علمی ہی میں اُنہوں نے نظم ’تاج محل‘ لکھ کر بزرگوں کی پوری نسل کو چونکا دیا تھا۔

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ اس شعری مجموعے کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔۔ ’گاتا جائے بنجارہ‘گیتوں کا انتخاب تھا۔

اردو کے بے مثال شاعر ساحر لدھیانوی نے لاتعداد نظمیں ،غزلیں اورفلمی گیت لکھے۔ساحر مبلغ تھے نہ مصلحت پسند، مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا۔ ان کی نظم ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ان کے جذبات کی عکاس اور ان کے ماحول کے تجزیے کی بہترین نظم ہے۔

یہ اٹھتی نگاہیں حسینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ
ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

ساحر لدھیانوی کا گھرانہ علمی و ادبی نہ تھا۔ نہ انہیں شاعری ورثے میں ملی، نہ ان کی آنکھ کسی خوبصورت پاکیزہ ماحول میں کھلی۔ ان کے کئی معاشقے زبان زدِ عام ہوئے۔ لدھیانہ گورنمنٹ کالج سے انہیں نکالا گیا۔ اس واقعے نے ان کے اندر جو زخم لگایا وہ شاعری کی صورت
پھوٹ بہا۔

ساحر کی آواز اور آہنگ فلمی دنیا کے گیتوں میں ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ جس نے شائقین کو نئے ذائقے سے آشنا کیا۔

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

ساحر نے شادی تونہ کی لیکن عشق میں ڈوبے رہے۔ساحر نےگیت ایسے لکھے جن کو سننے کے بعد دلوں کی دھڑکن ،بے قابو سی ہوجاتی ہے۔ ساحر لدھیانوی کے گانوں میں زندگی کی حرارت ملتی ہے ۔ وہیں کہیں کہیں ملنے اور بچھڑنے کا شکوہ بھی ہے۔۔

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں‌مانگیں، کانٹوں‌کا ہار ملا

کسی کو ٹوٹ کر چاہنے کا جذبہ۔ کبھی زندگی سے پیار کرنے کا احساس ۔تو کبھی ہر فکر سے آزاد

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

مست نغمے توساحر صاحب نے لٹائے لیکن جب دل ٹوٹا تو اس کا درد گانوں میں ہونے لگا نمایاں ۔

رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کرو
یہ مُرادوں کی حسین، رات کسے پیش کروں
میں نے جذبات نبھائے ہیں اصولوں کی جگہ
اپنے ارمان پرو لایا ہوں پُھولوں کی جگہ
تیرے سہرے کی یہ سوغات کسے پیش کروں

اُن کا دوسرا مجموعہٴ کلام’آؤ کہ کوئی خواب بُنیں‘ تھا، جو 1971ء میں شائع ہوا۔ اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ بھارت کی جانب سے 1971ء میں دیا جانے والی پدم شری کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل تھا۔

بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

عشقیہ اور المیہ شاعری کا یہ دکھی شاعر پچیس اکتوبر انیس سو اسی کو اس دنیا سے منہ موڑ گیا ۔۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔

ساگر سے ابھری لہر ہوں میں ساگر میں پھر کھو جاؤں گا
مٹی کی روح کا سپنا ہوں مٹی میں پھر سو جاؤں گا

ممبئی میں ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ تعمیر کیا تھا لیکن جنوری سنہ 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔اب اس کی قبر کا بھی کچھ نشاں پایا نہیں جاتا۔

کل کوئی مجھ کو یاد کرے کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے