کے ایچ خورشیداورکشمیر

ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں دھرتی ماں کی سرزمین پر بڑے بڑے نامور ادیبوں ،شاعروں ،درویشوں ،ولیوں ،سیاستدانوں،قانون دانوں،اہل علم اور دانشوروں نے آنکھ کھولی ۔ریاست جموں کشمیر کے عظیم لوگوں کی قابلیت ،اہلیت اور صلاحیت کا زمانہ معترف ہے ۔ان اہل علم لوگوں میں ایک نام کے ایچ خورشید (مرحوم ) کا بھی ہے ۔

کے ایچ خورشید کا پورا نام خورشید حسن خورشید تھا۔کے ایچ خورشید نے تحریک پاکستان کی تکمیل اورآزادی کے بیس کیمپ آزادکشمیر سے تحریک آزادی کشمیر میں بے لوث و بے غرض ہو کر دیانتداری ،دلیری ،جرات مندی اور کاز کے ساتھ مخلص ہوکر ایسا کردار ادا کیا جسے اہل پاکستان و کشمیر کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔خورشید 1924ء کو سرینگر میں پیدا ہوئے ۔1944ء کو برصغیر کے عظیم راہنماء بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر گئے تو خورشید کی غیر معمولی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھیں اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا ۔

خوش قسمتی سے کے ایچ خورشید کو بیس سال کی عمر میں ہی ایک عظیم قائد کی راہنمائی حاصل ہو گئی ۔1944ء سے قیام پاکستان تک کے ایچ خورشید قائداعظم ؒ کے دست راست رہے اوراس وقت کے انتہائی اہم واقعات کو قریب سے دیکھا ۔قائداعظم ؒ ان کے سیکرٹری کے ایچ خورشید کی شبانہ روز محنت اور مسلمانان ہند کی لازوال قربانیوں کے سبب 14اگست 1947ء پاکستان معرض وجود میں آیا ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم ؒ نے کہا کہ پاکستان میں میرے سیکرٹری خورشید اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا ہے ۔

14اگست 1947ء کو دوقومی نظرئیے کی جیت ہوئی برصغیر سے انگریز سامراج کا اختتام ہوااور برصغیر میں دو آزاد مملکتیں پاکستان اور بھارت قائم ہو گئی ۔دونوں ملکوں کے قیام کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر نے بھی جنم لیا۔کشمیر کی ہزاروں سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست تقسیم ہوگی اور سات دہائیاں گزرنے کے باوجود تقسیم ہے ریاست کے آدھے حصے پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور ایک حصہ پر پاکستان کا کنٹرول ہے ان سات دہائیوں میں دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں بھی بن چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان سلگتی چنگاری کی طرح ہے ۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک میں سارا سال سرد جنگ رہتی ہے اور اب تک دونوں ممالک کے درمیان کشمیر ایشو پر کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں کشمیر ایشو اسی طرح قائم ہے جس طرح 69سال قبل تھا اس لئے خدا نہ کریں اگر اب ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ہوئی تو پورا خطہ راکھ کا ڈھیر بن جائے گا ان سات دہائیوں میں کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی منظور ہوئی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعاون سے کئی ایگریمنٹ بھی ہوئے اور کئی لیڈروں نے بھی کشمیر ایشو کے حل کے لیے اپنے فلسفے بھی پیش کیے حق خودارادیت کے لئے کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے اور ہزاروں معصوم عورتوں کی عزمت دری بھی ہوئی لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر بدستور موجود ہے ۔

1962ء کے ایچ خورشید نے لبریشن لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تو انھوں نے لبریشن لیگ کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی آزادی کے لئے فلسفہ آزادی پیش کیا ۔انھوں نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک خودمختار حکومت بنانے کا فلسفہ پیش کیا جو پوری ریاست جموں کشمیر بشمول جموں لداخ اور وادی کی نمائندہ ہو گی ۔پاکستان اس حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کرے اور اپنے دوست ممالک سے بھی تسلیم کروائے تاکہ بیس کیمپ کی حکومت کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ ،جابرانہ قبضے کے خلاف پوری دنیا میں پوری ریاست کی نمائندہ حکومت بن کر سفارت کاری کر سکے

ان کا ماننا تھا کہ دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر کوئی زمینی تنازعہ نہیں بلکہ اس پر بسنے والے پونے دو کروڑ لوگوں کے پیدائشی حق خودارادیت کا ہے دنیا کو دو ممالک کے خود کے زمینی تنازعہ سے کوئی غرض نہیں جب تک ریاست جموں کشمیر کے نمائندے خود بین الاقوامی دنیا کے سامنے پوری ریاست جموں کشمیر کے سفیر بن کر اپنی صدا بلند نہیں کرتے اور بھارتی فوج کے ظلم وجبر کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے دنیا مسئلہ کشمیر کو دو ممالک کے درمیان زمینی تنازعہ سمجھتی رہے گی کے ایچ خورشید کے سیاسی حریفوں نے اقتدارکے لالچ میں اس فلسفہ کو حدف تنقید بناتے رہے مگر بعد میں اس فلسفہ کو ماننے پر مجبور ہو گئے

کے ایچ خورشید کہتے تھے سیاست عبادت ہے کاروبار نہیں اور پھر انھو ں نے اپنے اس قول کی مرتے دم تک پاسداری کی ۔کے ایچ خورشید بانی پاکستان قائد اعظم کے قریب ترین رہے مگر کبھی بھی ان کا نام استعمال کر کے مفادات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اگرچہ وہ چاہتے تو بے پناہ مفادات حاصل کرسکتے تھے ۔ان کو آزادکشمیر کے پہلے منتخب صدرہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جبکہ وہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے مگر اس کے باوجود اپنے بیوی بچو ں کو 5مرلے کا گھر بھی نہ دے سکے ۔

10مارچ 1988ء کو میرپور میں وکلاء کنونشن میں شرکت کے بعدگھر واپس لاہور جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر شروع کیا ۔مسافر ویگن گجرانوالہ بائی پاس پر کھڑی ٹرالی سے ٹکرا گئی ۔حادثہ میں کے ایچ خورشید حادثہ میں شدید زخمی ہو ئے اور بلا آخر کشمیر کا عظیم سپوت خورشید ملت ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا ۔کہا جاتا ہے حادثہ کے وقت ان کی جیب سے صرف 37روپے نکلے ۔بانی پاکستان کا پرائیویٹ سیکرٹری ،آزادکشمیر کا سابق صدر واپوزیشن لیڈرنہ اپنا گھر بنایا ،نہ جائیداد اور نہ ہی بینک بیلنس اور ایک مسافر گاڑی میں سفر کرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوئے اور اپنی جان آفرین کے سپرد کر دی اور جن کی جیب سے صرف 37روپے نکلے وہ کتنے عظیم انسان تھے ان چند باتوں سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے آج کے دور میں ایسا لیڈر کا تصور بھی مشکل ہے بی ٹی ممبر کا الیکشن لڑے والوں نے اپنے گرد دولت اور جائیداد کے انبھار لگا رکھے ہیں یہ تمام چیزیں کے ایچ خورشید کے اس قول کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو وہ کہتے تھے سیاست عبادت ہے کاروبار نہیں۔

کے ایچ خورشید نے ہمیشہ نظریئے اور اصولوں کی سیاست کی ہے اسی وجہ سے انھیں زندگی میں بے پناہ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ مصلحت کا شکا ر نہ ہوئے اور اصولوں پر ڈٹے رہے ۔انھوں نے کس قدر مشکل زندگی گزاری اس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے اگر کے ایچ خورشید کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے اور پھر آج کے سیاستدانوں کا مشائدہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے آج کے سیاستدانوں کا ایجنڈا ہی مال و جائیداد بنانا ہے اور آج کے دور اس بہتی گنگا میں ہر چھوٹا بڑا شخص ہاتھ دھوتانظر آتا ہے ۔

یہی وجہ کہ موجودہ دور میں کے ایچ خورشید جیسا بے لوث سیاستدان ملنا محال ہوگیا ہے ۔کے ایچ خورشید نے اپنے سیاسی کیریئر میں کئی سیاستدان بنائے ۔کے ایچ خورشید کی مہربانیوں سے گمنام نام بھی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے مگر خورشید کے سیکھائے سبق کو پاؤں نیچے روند کر سیاست میں نظریات اور اصولوں کو بلائے طاق رکھ دیا اور نا صرف مفادات کی خاطر نئے قائد اور نئے سیاسی کعبے بنا لئے بلکہ آزادی کے بیس کیمپ سے اپنے کردار سے بھی آنکھیں موند لیں جبکہ کچھ نے نظر یات اور اصولوں کو اس طرح کچلا کے نئے قائد اور نئے سیاسی کعبے بنانے کی عادت ہی بنالی اور وہ آج بھی اپنی اس عادت سے مجبور نظر آتے ہیں مگر نامساعد حالات میں بھی خورشید کے نظریات اور اصولوں پر کاربند رہنے والے مخلص لوگ بھی موجود رہے ۔

خورشید کہتے تھے کہ انسان آتے جاتے رہتے ہیں مگر ان کے اصول ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو لوگ اصولوں کی خاطر زندہ رہتے ہیں وہ لوگ ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں بلکل درست کہا تھا خورشید نے انسان دولت ،جائیداد اور وراثت سے تاریخ میں زندہ نہیں رہتے بلکہ ان کے اصول اور ان کا کردار ان کو زندہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کے ایچ خورشید کے بے لوث اور بے غرض تحریک پاکستان کی تکمیل اورتحریک آزادی کشمیر کے لئے کردار کو پاکستانی اور کشمیری قوم ہمیشہ یاد رکھے گی ۔

کہتے ہیں حقیقت کو جتناجلدی تسلیم کرلیا جائے اتنہا ہی انسان ،معاشرے،ادارے ،قوم اور ملک مفاد میں رہتاہے ۔لبریشن لیگ ایک حقیقت ہے مگر اس کو دوبارہ سے فعال کرنا آسان نہیں اور اس حقیقت کو لبریشن لیگ کے عہدیداران اور کارکنان کو مان لینا چاہیے۔سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک اس وقت لبریشن لیگ کے موجودہ صدر ہیں اور کافی عرصہ سے وہی صدر چلے آرہے ہیں ۔عبدالمجید ملک کاکے ایچ خورشید کے قریبی ساتھیوں میں شمار تھا وہ اپنے اند ر کشمیر کی پوری تاریخ سموئے ہوئے ہیں تحریک آزادی کشمیر میں ان کا اہم کردار ہے اور اب بھی سیاسی و سفارتی سطح پر مقدمہ کشمیر لڑ رہے ہیں وہ ایک زیرک ،دور اندیش اور فہم فراست والے انسان ہیں ۔ لبریشن لیگ کو اب دوبارہ فعال کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہے اس لئے وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھ کر عبدالمجید ملک سیاسیات اور کشمیریات کے اسٹوڈنٹس کو فلسفہ خورشید پڑھائے ۔

نوجوانوں کو یہ شعور دے کہ کے ایچ خورشید نے کس طرح پیٹ پر پتھر بانند کر پہلے قیام پاکستان اورپھر تحریک آزادی کشمیر کے لئے میدان عمل میں جدوجہد کی کس طرح انھوں نے بے لوث وبے غرض ہوکر ملک و قوم کی خدمت کی ۔ کے ایچ خورشید کی طرز سیاست سیکھ کر قوم کی بے لوث خدمت کرنے والی لیڈر شپ وقت کی ضرورت ہے ،عبدالمجید ملک آج کے نوجوانوں کو فلسفہ خورشید جمہوریت ،آزادی ،مساوات اور مستحکم سیاسی نظام سیکھانے میں کامیاب ہوں گے تویہ ان کا ریاست جموں کشمیر کی عوام پر احسان ہو گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے