کھلونے چابی کے

سینیٹ کے تازہ الیکشن ایک اچھی خاصی اسٹاک ایکسچینج تھی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انڈین فلم کا یہ گانا کیوں زیادہ پسند تھا ’’ جھوم جھوم کے ناچو آج گائو خوشی کے گیت‘‘ جس گیت کے یہ بول بھی ہیں کہ ’’آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت۔‘‘یہ فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے کہ واقعی سینیٹ کے گزشتہ دنوں انتخابات میں آخر جیت ہوئی کس کی ہے ؟لیکن ان تمام کہانیوں سے قطع نظر کہ فرانس کے حکمراں کیلی گولا نے اپنے گھوڑے کوبھی سینیٹر بنوایا تھا، اگرچہ پاکستانی سینیٹ کے انتخابات میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایوان بالا کے انتخابات مچھلی مارکیٹ نہیں پس پردہ گھوڑا منڈی ہی نظر آئے۔ لیکن یہ علامت پسندی اچھی لگی کہ صدیوں زمانوں سے ارازیل وطن قبیلوں کی بیٹی کرشنا کماری سینیٹ میں پہنچ گئیں۔

جب کرشنا اپنے روایتی ہزاروں سالہ پرانے لباس اور کہنیوں تک چوڑیوں میں ڈیسکوں کی آواز میں روسٹرم پر رول کال پر دستخط کرتے ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی تب لگا کہ چلو زرداری صاحب کا ہائی ڈرامہ ہی سہی لیکن پاکستانی سیاست و سماج میں ایک بڑی روایت شکنی تو ہوئی ہے۔ ڈرامہ بھی ایک انقلابی ڈرامہ ہے جس میں سچ مچ کے کردار ہیں۔ میں نے سوچا کرشنا مورتی سے لے کر کرشنا کماری تک خوابوں کے شکاریوں نے ہمیں کیسے کیسے شکار کیا ہوا ہے۔ زرداری اور ان کی پی پی پی واقعی اس پر مبارکباد کے مستحق تو ہیں ہی پر سندھ اور چولستان بھی ہیں جہاں کی دراوڑ نسلوں کی یہ شہزادی آریائوں کے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ ہم غریبوں کی بیٹی جس کے ماں باپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے۔ جس کے گائوں والے کبھی اسے سینیٹر کہتے ہیں تو کبھی جنریٹر۔ کرشنا کماری کی جیت بھی آخر جیت ہے کس کی؟ پی پی پی زرداری سے زیادہ شاید عاصمہ جہانگیر کی؟ کہ اس کے بھائی ویر جی کولہی اور اس کے سیاسی سفر کے پرانے ساتھیوں کی؟ کہ خود اس تاریخ کی جس نے کرشنا اور ویر جی کو کرشنا کماری اور ویر جی کولہی بنایا۔

آج سے تین چار دہائیاں قبل عاصمہ جہانگیر اور ان کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سندھ ٹاسک فورس کے شکیل پٹھان و دیگر نے سندھ کے وڈیروں اور ظالم زمینداروں کی نجی جیلوں اور بیگار کیمپوں میں کئی دہائیوں سے قید جن کسانوں یا ہاریوں کے خاندانوں کو بچوں، عورتوں اورمردوں سمیت آزاد کروایا تھا تو ان میں یہ دو بچے اور بہن بھائی بھی شامل تھے۔ کرشنا کماری اور ویر جی کولہی۔ یہ دونوں بہن بھائی تھر کے ننگر پارکر سے تعلق رکھتے ہوئے بھی نہ صرف اسکول اور کالج تک گئے،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حیثیت سے انتہائی سرگرم بھی ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ تھر میں اقلیتوں کی خواتین اور ہاریوں کے ساتھ ہونیوالی نا انصافیوں پر ہر وقت آواز اٹھانے کی پاداش میں ابھی پچھلے ماہ تک ویر جی کولہی سنگین نوعیت کے جھوٹے الزامات کے مقدموں میں جیل میں تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہوگا پھر تخت و تاج گریں کہ نہ گریں مگر آئٹم زرداری کا زور دار ہے۔

ویر جی کولہی کی جیت کہ کرشنا کی جیت ان خیالات کی جیت ہے جسے زرداری نے فقط اپنے حق میں کیش کروایا ہے۔ جدوجہد تو اصل میں اس سے(زرداری سے) بہت بڑے لوگوں کی تھی۔ جیسے میں نے کہا عاصمہ جیسے لوگ، حیدر بخش جتوئی جیسے لوگ جام ساقی جیسے لوگ اور خود فریال زرداری کے سسر میر علی بخش تالپور جیسے لوگ، فاضل راہو، روی رام، غلام محمد لغاری اور غلام حیدر لغاری جیسے لوگ۔ چاہے بینظیر بھٹو کی بیٹی کا نام بختاور ایک ہاریانی سورما کے نام پر ہے وہ بھٹو یا زرداری کی نہیں ان لوگوں کی جیت ہے جنہوں نے مائی بختاور لاشاری کا اس جاگیر پر غیر حاضر جاگیرداروں کے خلاف ساتھ دیا تھا جو بٹئی کی (فصل ) لے جانا چاہتے تھے ہاریوں نے مزاحمت کی ۔زمینداروں کے حواریوں نے گولی چلائی جس میں مائی بختاور لاشاری قتل ہو کر آج تک سندھ میں ایک ہیروئن کا کردار بن گئی۔ بینظیر بھٹو کی بیٹی کا نام اسی مائی بختاور کے نام پر ہے۔ لیکن ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر جب اسی کرشنا کماری نے حامد میر کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا بلا جھجک اظہار کیا کہ اس کے نزدیک سینیٹ کا چیئرمین رضا ربانی کو ہونا چاہئے تو کرشنا پرپارٹی قیادت (قیادت جس کا مطلب ابا، بیٹا اور پھوپھی ہیں) کافی ناراض ہوئی۔ لیکن سینیٹ میں کوریو گرافی پی پی پی زرداری کی اچھی تھی۔ واہ رے بازی گر تیری بازی جو کہ زرداری سمیت سب پر بھاری ہے۔ بھاری بوٹوں والا بازیگر۔ اس کی سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے۔ ایک لانگ بوٹ کی جوڑی میں دو پارٹیاں فٹ ہو جاتی ہیں۔ خوب بازیگری ہے۔ مبارک مبارک۔

ولی عہد بلاول بھٹو زرداری نے فرمایا کہ آمر ضیا الحق کا اوپننگ بیٹسمین ہار گیا۔ ان کا اشارہ راجہ ظفرالحق کی طرف تھا۔ ضیا کے اوپننگ بیٹسمین بہت ہیں۔ میں نے ایک تصویر دیکھی۔ آپ نے بھی دیکھی ہوگی جس میں ضیا الحق کے ساتھ ان کے دائیں راجہ ظفر الحق اور بائیں نواز شریف کے علاوہ غلام اسحاق خان اور صاحبزادہ یعقوب علی خان بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بینظیر مشروط اقتدار میں آئیں تو آمر کی باقیات میں سے صاحبزادہ یعقوب علی خان (بلکہ قابل تحسین اور جراتمندانہ کردار ان کا یہ تھا کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا) اور ایک اور بابے غلام اسحاق کو بھی ساتھ لائیں۔ بلکہ غلام اسحاق خان کو صدارت کے عہدے کیلئے اپنا امیدوار بھی منتخب کروایا تھا،نوابزادہ نصر اللہ جیسے بابائے جمہوریت پر ترجیح دیتے ہوئے بینظیر ملک قاسم کو ملک کا صدر منتخب کروانا چاہتی تھیں لیکن ایم آرڈی تحریک میں قربانیاں دینے والے ملک قاسم پر اسٹیبلشمنٹ کو سخت اعتراضات تھے۔ باقی پوری تاریخ ہے۔

ملکی سیاست کی زبانی تاریخ بتلاتی ہے کہ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے یہ باور کرایا تھا کہ وہ لوگ (بی بی اور ان کے میاں ) تب تک سیاست میں مقابلہ نہیں کرسکتے جب تک ان کے پاس دولت شریف برادران جتنی یا ان سے زیادہ نہ ہو۔ اب موچی کے جوتے موچی کے منہ پر ہیں۔ اب آئی جے آئی کا بقول شخصے وارث زرداری ہے اور بھٹو کا وارث نواز شریف جس نے ٹھیک ہی کہا کہ، چابی کے کھلونے ایک ہی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے۔ بس مجھے کشور کمار کا گیت یاد آنے لگا جتنی چابی بھری رام نے اتنا چلے کھلونا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے