منظور پشتین: ’تحریک کے پیچھے اپنوں کے لیے بہتے ماؤں،بہنوں کے آنسو ہیں‘

’پہلے جب نامعلوم نمبر سے کال آتی تھی، تو مطلب ہوتا تھا کہ مرنے کی تیاری کرلیں۔ کیا آپ کو فلاں یاد نہیں؟ آپ ہی کی طرح کی باتیں کرتا تھا، یاد ہے کیا ہوا اُس کے ساتھ؟‘ یہ الفاظ ہیں پاکستان کے پشتون علاقوں سے ابھرنے والے امن کے متلاشی ایک نوجوان منظور احمد پشتین کے جو انھوں نے بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں کہے۔ ’ہمارے علاقے میں نامعلوم نمبروں سے کال کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں، کہ یہ کون کرتا ہے یا اس کی صلاحیت کون رکھتے ہیں۔‘

وبی وزیرستان کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی شعور انھیں والد سے ورثے میں ملا۔ ’میرے والد سکول میں استاد رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی گھر پھل لے کر نہیں آئے۔ جس رقم سے وہ پھل خرید سکتے تھے انھی سے وہ ایک کتاب لے آتے تھے۔ وہی کتاب ہم سب پڑھ لیتے تھے۔‘

منظور نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی اور پھر بنوں میں آرمی پبلک سکول اور وہیں کے کالج میں زیر تعلیم رہے۔ منظور پشتین کے بقول وہ اپنے سکول کے 52 طالب علموں میں واحد نوجوان ہیں، جنھوں نے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔ انھوں نے گومل یونیورسٹی سے ویٹنری سائنس میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن انھیں کچھ اور ہی کرنا تھا۔ وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے شروع ہونے والی اپنی طرز کی پہلی عوامی تحریک کی سربراہی ان کی منزل ٹھہری۔

منظور پشتین کا ماننا ہے کہ ان کی تحریک کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ ’یہ تحریک بہت پہلے سے اٹھی تھی بس شکلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ سنہ 2003 میں جب اس علاقے میں کارروائی شروع ہوئی اور عام آدمی متاثر ہوا ہے تو ان کے نمائندے مشران بولے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ ظلم نہ ہو، یہاں امن ہو تو انھیں مار دیا گیا۔ سنہ 2010 تک جو بولنے کی جرات کرتا وہ ختم کر دیا جاتا تھا۔ جو امن کی بات کرتا، وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں مار دیا جاتا تھا۔ اسی لیے ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی باتیں آپ کو صرف موت دے سکتی ہیں اور کچھ نہیں۔‘

قومی میڈیا پر کوریج نہ ملنے کا توڑ منظور نے سوشل میڈیا کا فائدہ اٹھا کر نکالا. منظور پشتین نے مقامی سطح پر اپنی محسود تحفظ تحریک سنہ 2014 میں شروع کی تھی اور مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے گروہوں میں وہ اپنی سوچ واضح کرتے رہے۔ منظور پشتین کے مطابق وہ اکثر بمباری، بارودی سرنگوں کے دھماکوں اور چیک پوسٹوں پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف مظاہرے کرتے تھے، لیکن سب سے بڑا مظاہرہ اُنھوں نے ٹانک میں 15 نومبر 2016 کو کیا تھا جس میں سکیورٹی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔

اسلام آباد میں فروری 2018 کے کامیاب دس روزہ احتجاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظور نے اپنی تحریک کی سمت نہ صرف تبدیل کی اور اسے پشتون تحفظ تحریک کا بڑا کینوس دے دیا بلکہ اس کی تنظیم نو بھی شروع کر دی۔ وہ اس تحریک کا دائرہ قبائلی علاقوں سے بڑھا کر بلوچستان اور کراچی تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ان علاقوں میں عوامی جلسوں کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔

قومی میڈیا پر کوریج نہ ملنے کا توڑ انھوں نے سوشل میڈیا کا فائدہ اٹھا کر نکالا ہے۔ ان کی فیس بک پروفائل پر زخمی خون آلود لاشوں اور کراچی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے وزیرستان کے نوجوان نقیب اللہ محسود کی تصاویر ملیں گی اور اپنا تعارف وہ حقوق انسانی کے کارکن کے طور پر کرواتے ہیں۔

وہ فیس بک لائیوز کے ذریعے فروری کے بعد سے تحریک کے اندر اٹھنے والے خدشات اور سوالات کا مفصل انداز میں جواب دیتے ہیں اور اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ میں پالیسی بیان بھی جاری کرتے ہیں جیسا کہ ان کی تحریک انتخابی سیاست کا حصہ کبھی نہیں بنے گی۔

’یا اللہ قیامت کو آپ نے کہاں چھپا دیا ہے‘ اس سوال پر کہ ان کی تحریک اتنی متحرک کیسے ہوئی منظور کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن تھی۔ ایک مرتبہ میں (وزیرستان کے علاقے) جگملائی گیا، وہاں دو ماہ میں کرفیو کے دوران بہت ظلم ہوا تھا۔ میں نے ان سے اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا منظور ہمارے پاس مت آیا کرو۔ بس ایک دعا میں ہمارا ساتھ دو۔ سب نے ہاتھ اٹھا دیے۔ انھوں نے کہا یا اللہ قیامت کو آپ نے کہاں چھپا دیا ہے۔ کیوں نہیں آتی قیامت تاکہ ہماری جان خلاصی ہو جائے۔ وہ میرے پیچھے نہیں آئے ہیں انھیں بس ایک آواز چاہیے تھی کہ ان کی ترجمانی کرے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کے پیچھے ان ماؤں اور بہنوں کے آنسو ہیں جو اپنوں کے لیے ٹپک رہے ہیں۔ منظور کا الزام ہے کہ قبائلی علاقوں میں فضائی حملوں میں مارے جانے والوں میں دہشت گرد نہیں بلکہ اکثر عام شہری تھے اور ان کی املاک پر بمباریاں ہوئی ہیں۔

’اس کے اعدادوشمار ہمارے پاس ہیں۔ ان میں اکثر بچے اور عورتیں تھیں۔ ہم تو کہتےتھے، کہ یہ جو پائلٹ بم گرا رہے ہیں، اُن کو بھی اس بات کا پتہ نہیں، کہ ان کے بموں سے بچے، عورتیں اور بے گناہ لوگ مر رہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ہمیں یہ نہ صرف احساس ہوا، بلکہ یقین ہوگیا کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں، ہمارے خلاف ہے۔ یہی ہم حکام سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ وہ گول مول جواب دیتے ہیں۔‘

بعض حلقوں کی جانب سے منظور پشتین پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ انھیں بیرونی ممالک کی مدد حاصل ہے۔ اس سلسلے میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اسلام آباد احتجاج کی حمایت میں ٹوئٹر پر پیغام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان الزامات کے جواب میں منظور کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کسی اور ملک کے مفاد کی بات نہیں کی ہے۔ ہم نے صرف پشتونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بات کی ہیے۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ انڈیا میں جبری طور پر لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے، ہمارے جتنے بھی مطالبات ہیں، وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔‘

[pullquote]’پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اس طرح کی غلطیاں کیوں‘[/pullquote]

منظور نے بتایا کہ سرکاری پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرنے پر انھیں دھمکیاں بھی ملیں اور گرفتار بھی کیا گیا۔
بقول ان کے یہ سب کچھ پہلے دن سے جاری ہے۔ ’میں عید کے لیے اپنے گاؤں گیا، تو وہاں لوگ مجھے آنکھوں آنکھوں میں داد دیتے تھے، کہ یہ جو میں کر رہا ہوں، بالکل صحیح کر رہا ہوں، لیکن وہ خوف کی وجہ سے مجھ سے نہ ہاتھ ملاتے اور نہ ہی پاس آتے تھے۔‘
منظور کے مطابق گذشتہ برس عید پر انھیں سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا اور وہ دو دن ان کی تحویل میں رہے۔
’مجھے میرے بھائی نے بتایا کہ پورے گاؤں کو فوج نے گھیرے میں لیا ہے اور وہ آپ کا پوچھ رہے ہیں۔ میں سیدھا ان کی چیک پوسٹ (مولاخان سرائے) چلا گیا۔ وہاں سے مجھے گرفتار کر لیا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس دوران مختلف ایجنسیوں کے اہلکار ان سے تفتیش کرتے رہے۔ ’مجھے کہتے تھے، پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اس طرح کی غلطیاں کیوں کر رہے ہو؟‘ منظور سے جب پوچھا گیا کہ طالبان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بھی قبائلی علاقوں میں بہت ظلم کیے ہیں، ان کے خلاف وہ کیوں لب کشائی نہیں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا ’اب ہم سب کو پتہ ہے، کون کس کا پیدا کردہ ہے؟‘
قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کے شدت پسندی کی جانب مائل ہونے کے بارے میں منظور پشتین کا مؤقف واضح ہے۔

’ریاست نے شدت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ پاکستانی فوج کے سابق اہلکار کرنل امام کا کہنا ہے کہ انھوں نے 95 ہزار افراد کی تربیت کی۔ یہ جنرل مشرف کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر سے ہم شدت پسند یہاں لائے۔ یہ جنرل عبدالقادر بلوچ نے تسلیم کیا کہ قبائلی علاقوں کو افغانستان میں محاذ بنانے کے لیے نرسری کے طور پر استعمال کیا گیا۔‘

[pullquote]ضرورت پڑی تو لڑکیاں بھی آگے آئیں گی[/pullquote]

ان کی تحریک میں کیا قبائلی عورتوں کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے گی یا نہیں تو انھوں نے جواب ایک پشتو شعر کی صورت میں یوں دیا:
’کہ د زلمو نہ پورہ نہ شوہ
گرانہ وطنہ جینکئی بہ دی گٹینہ‘
ترجمہ: اگر نوجوان لڑکوں سے ہدف حاصل نہ ہوا تو لڑکیاں آپ کو جیت دلائیں گی۔
تاہم ان کا اصرار تھا کہ اگر خدا نے چاہا تو ان کے اہداف مرد ہی حاصل کر لیں گے لیکن اگر ضرورت پڑی تو لڑکیاں بھی آگے آئیں گی۔ ’اس وقت تھوڑی تعداد میں ہمارے ساتھ عورتیں ہیں۔ لیکن اور بھی آئیں گی۔‘
اپنی تحریک کے مستقبل کے بارے میں منظور کا کہنا ہے کہ ’یہ تو ان لوگوں پر منحصر ہے۔ وہ ہمیں برابر کا شہری سمجھتے ہیں کہ نہیں۔‘ تاہم وہ اس بات پر واضح ہیں کہ ان کی تحریک پرامن رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے