اسٹیفن ہاکنگ کیوں مشہور ہوئے

اسٹیفن ہاکنگ دنیا سے چلے گئے۔ ان کو ہمارے عہد کا سب سے ذہین انسان اور طبعیات دان مانا جاتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انکا کوئی کام ابھی تک نوبل پرائز کے بڑے درجے کو حاصل نہیں کر سکا۔ بظاہر یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ہاکنگ کی ذہانت نوبل انعام کا بلاشبہ استحقاق رکھتی تھی۔

1910 میں آئن سٹائن نے جب اپنا نظریہ عمومی اضافیت پیش کیا تو معلوم ہوا کہ قوت تجازب gravity دراصل وہ قوت نہیں ہے جو اجسام کو باہم کھینچتی ہے بلکہ یہ مکاں space کی ایک خصوصیت ہے جو بھاری اجسام (سورج، سیارے، ستارے وغیرہ) کے موجود ہونے کیوجہ سے سپیس میں خم curve ڈال دیتی ہے۔ جسم جتنا بڑا اور بھاری ہو گا، سپیس میں خم اتنا ہی چوڑا اور گہرا پڑے گا۔ آئن سٹائن کے اس نطریے سے ایک یہ پشین گوئی کرنا ممکن ہوئی کہ ایک بہت بڑی کمیت اور لامحدود حد تک چھوٹا جسم سپیس فبیرک میں جو نہایت گہرا خم ڈالے گا وہ کیسا ہو گا؟ تو وہ خم ایک ایسا کنواں ہو گا کہ اس میں جو گر گیا وہ کبھی بھی واپس نہیں آ سکے گا حتی کہ روشنی بھی۔ جب روشنی بھی وہاں سے واپس نہیں آ سکتی تو لامحالہ طور پر وہاں سے واپسی کے لیئے روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار درکار ہو گی۔ اس نقطہ کو سنگولیرٹی singularity کہا گيا اور ایسے جسم کو بعد میں بلیک ہول کہا گیا۔

ان بنیادوں پر بلیک ہولز کی پشین گوئی سب سے پہلے 1939 میں امریکی طبعیات دان رابرٹ اوپن ہائمر Robert Oppenheimer نے کی تھی۔ شروعات میں بلیک ہولز کے تصور کو احمقانہ گردانہ گیا تھا۔ 1959 میں ہاکنگ جب آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھا تو اس نے اس خیال کو کافی سنجیدہ لیا۔ پی ایچ ڈی کے دوران ہی ہاکنگ کو خطرناک بیماری کی بھی تشخیص ہو چکی تھی جو اسکو مستقل فالج زدہ اور موت کے انتہائی قریب لے جانی والی تھی۔ اسی عرصے میں ہاکنگ نے بگ بینگ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خیال کرتا تھا کہ بگ بینگ جس نقطہ سے شروع ہوا وہ بھی ایک بلیک ہول کی مثل ایک نقطہ ہو گاجس میں یہ ساری کائنات سموئی پڑی تھی لیکن پھر وہ پھٹ collapsed پڑا اور بگ بینگ ہو گیا۔ اس نے اپنے ساتھی پینروزPenrose کے ساتھ مل کر 1970 میں یہ نظریہ پیش کیا کہ اس کائنات کا آغاز بھی ایک سنگیولیرٹی سے ہوا ہے۔

اس کے بعد ہاکنگ نے اگلا مفروضہ پیش کیا کہ ایک بلیک ہول سائز میں صرف بڑھ سکتا ہے چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ وہ اسطرح کہ بلیک ہول مادہ کو نگلتا ہے جو کبھی باہر نہیں آ سکتا تو اس سے اسکی جہاں کمیت بڑھتی چلی جاتی ہے وہاں اس کے سائز میں بھی اضافہ ہو گا اور نتیجے کے طور پر ایونٹ ہورائزن event horizon کا قطر بھی مزید چوڑا ہو گا۔ یاد رہے ایونٹ ہورائزن بلیک ہول کے گرد وہ حد ہے جس کے بعد واپسی ممکن نہیں۔ اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ خلا سے زمین کیطرف فری فال کریں تو خلا سے زمین کے کرہ ہوائی تک آپ کو ایک مخصوص حد تک تو انجن کے زور سے آنا ہو گا اور اس مخصوص حد کے بعد زمین آپ کو خود ہی اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اسیطرح ایونٹ ہورائزن وہ حد ہے جس کے باہر تو فزکس کے قوانین کام کرتے ہیں مگر اس کے اندر بلیک ہول کیطرف یہ فزکس کام نہیں کرتی۔ وقت، روشنی، مادہ سب تصورات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ مگر ہاکنگ اس سے بھی آگے گیا اور اس نے ریاضياتی طور پر ثابت کیا کہ بلیک ہولز کبھی بھی تقسیم کا شکار نہیں ہوتا حتی کہ اگر دو بلیک ہولز بھی آپس میں ٹکرا جائیں۔

ہاکنگ نے پھر ایک اور دلچسپ چھلانگ ماری اور کہا کہ انٹروپی entropy اور ایونٹ ہورائزن کا بڑھنا آپس میں مطابقت رکھتا ہے۔ انٹروپی تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون ہے جس کے مطابق جیسے جیسے کائنات کی عمر بڑھ رہی ہے ویسے ویسے اس میں بے ترتیبی بڑھ رہی ہے اور ہاکنگ نے کہا کہ جیسے جیسے انٹروپی یا کائنات میں بے ترتیبی disorder بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ایونٹ ہورائزنز کا رقبہ surface area بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور جیسا کہ اوپر کہا کہ ایونٹ ہورائزن وہ حد ہے جس کے باہر تو فزکس کے قوانین کام کرتے ہیں مگر اس کے اندر فزکس کے قوانین کام نہیں کرتے اور وقت، روشنی، مادہ سب تصورات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔

یہاں پر ایک نوجوان طبعیات دان جیکب بیکنسٹین Jacob Bekenstein نے ایک ‎شوشہ چھوڑا ہو سکتا ہے کہ انٹروپی اور ایونٹ ہورائزن کی یہ مطابقت اس چیز کی پیمائش ہو کہ بلیک ہول کے اندر بھی اتنی ہی انٹروپی برپا ہے۔ ہاکنگ سیمت دیگر لوگوں نے اس شوشہ کو فورا مسترد کر دیا کیونکہ انٹروپی کے لیئے درجہ حرارت کا ہونا ضروری ہے اور درجہ حرارت کا مطلب ہے توانائی کی اشعاع کا خارج ہونا تو بھئی بلیک ہول سے تو کوئی شعائیں خارج نہیں ہوتیں تو اس تناقض paradox کا جواب کیا ہے۔

اس تناقض کا جواب طبعیات کے ایک بہت بڑے کارنامے کی صورت میں مہیا ہوا اور وہ کارنامہ تھا نظریہ اضافیت عمومی اور نظریہ کوانٹم کا باہم ادغام۔ نظریہ اضافیت عمومی کونیاتی بڑے اجسام سے متعلق ہے جبکہ نظریہ کوانٹم نہایت ننھے ایٹمی ذرات سے متعلق ہے۔ دونوں نظریات کائنات کی مادی توجیہہ کو بالکل مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہیں۔ کوانٹم تھیوری کے مطابق سپیس ایک خالی void شیٹ نہیں ہے۔ سپیس کوانٹم ذرات سے موجود ہے۔ یہ ذرات مادہ matter اور مخالف مادہ anti-matterکے جوڑے میں کام کرتے ہیں۔ اصول ہے کہ اس کائنات میں کوئی نئی انرجی تخلیق نہیں ہو رہی ہے۔ میٹر اور اینٹی میٹر کے ذرات آپس میں دشمن ہیں جو اتنی تیزی سے ایک دوسرے کو فنا کرتے ہیں کہ ان کا براہ راست مشاہدہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے انکو مجازی ذرات virtual particles بھی کہا جاتا ہے۔ ہاکنگ نے یہ تجویز کیا کہ ہو سکتا ہے کہ بلیک ہول کے پاس یہ مجازی ذرات حقیقی ذرات میں بدل جاتے ہوں۔ جیسے یہ چانس ہے کہ ایک جوڑے میں سے ایک کوانٹم ذرہ بلیک ہول میں چلا گیا مگر اس کا دوسرا ساتھی کہیں ایونٹ ہورائزن کے گرد رہ گیا تو جو کوانٹم ذرہ بلیک ہول میں چلا گیا تھا بلیک ہول اس کو واپس اس کے ساتھی کے پاس اچھال دے گا کیونکہ اصول ہے کہ کائنات میں نئی انرجی تخلیق نہیں ہو رہی جو تخلیق ہو چکی وہی موجود ہے۔ تو یہ جو واپس اچھالنا ہے یہ شعاعوں کے اخراج کا دوسرا نام ہو گا۔ یعنی بلیک ہول میں بھی انٹروپی ہو سکتی ہے۔ بلیک ہول کی ان شعاعوں کی "ہاکنگ ریڈی ایشن” کا نام دیا گیا۔ ابھی تک ہاکنگ ریڈی ایشنز تجربات سے ثابت نہیں ہیں۔

سنجیدہ طبعیات دانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہاکنگ بس ایک سائنسی مفکر ہے جو کچھ نیا سے نیا خیال سوچتا رہتا تھا۔ وہ پاپولر کلچر کی ایک سائنسی سلیبرٹی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل میں انہوں نے جتنی شہرت کمائی ہے اتنا ان کا کام نہیں ہے۔ ہاکنگ نے ایک مرتبہ مزاح کے انداز میں بتایا کہ وہ ایک مرتبہ 100 ڈالر کی شرط ہار گیا تھا اس دعوی کے اوپر کہ ہگز پارٹیکل تجرباتی طور پر دریافت نہیں ہو سکے گا جبکہ ہگز پارٹیکل انہی کی زندگی میں سرن لیبارٹری میں دریافت ہو گئے۔ ہگز پارٹیکل کی دریافت کو ہاکنگ نے فزکس کی تحقیقات میں ایک بہت بڑا قدم گردانا تھا۔
یقینا اسٹیفن ہاکنگ سائينس کی دنیا کے ایک بہت بڑے آئیکون سٹار کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
ایک انٹرویو میں ہاکنگ سے سوال کیا گیا کہ
What do you think most about during the day?
اس کا جواب تھا
Women. They are a complete mystery.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے