راولپنڈی اسلام آباد میں ڈکیتی کی وارداتیں لمحہ فکریہ۔۔۔!

وفاقی دارالحکومت اورجڑواں شہرراولپنڈی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں خطرناک حدتک اضافہ ہوگیاہے،ان وارداتوں میں شہریوں کا نقدی ، طلائی زیورات ، گاڑیوں ، موٹر سائیکل سمیت قیمتی سامان سے محروم ہونا روز کی بات ہے۔سوال یہ ہے کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب ہم پوٹھوہار بیلٹ میں قیام پزیر ہوئے تو یہ پنجاب بلکہ وسطی پنجاب سے زیادہ پرامن اور چوری ڈکیتیوں سے پاک علاقہ سمجھا اور جانا جاتا تھا۔دس روز قبل میرے دفتر کے ساتھی ہارون الہی طور کے ساتھ دن دیہاڑے پی ڈبلیو ڈی میں ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا،دو نوجوان ڈاکو اس سے نقدی اور بھابھی سے تقریبا ۴ لاکھ مالیت کےزیورات لے گئے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق تھانہ سیکرٹریٹ کو رحیم خان نے بتایا کہ پارکنگ میں کھڑی مہران کار نمبرLOD6033 چوری ہوگئی تھانہ رمنا کو ظفر محمود نے بتایا کہ انکے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل فون چھین لئے گئے۔اسلام آبادکی پی ڈبلیوڈی کالونی میں ہی اورمارگلہ ٹاون میں ڈاکووں نے گھر وںمیں گھس کرلوٹ مارکی ،نامعلوم چوروں اور ڈاکوئوں نے شہریوں سے لاکھوں روپےکی نقدی ،زیورات،کار اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جی نائن فور سے زاہداللہ کی 17 لاکھ روپے مالیت کی کار نمبرVF-398 چوری کرلی گئی ۔کھنہ پل کے قریب تھانہ کو رال کے علاقہ میں ڈاکو اللہ بخش سے 4لاکھ 35ہزار روپے لے گئے ، مزاحمت پر ایک شہری زخمی 24،گزشتہ ہفتےکے دوران 40لاکھ کے زیورات ،20ہزار پونڈ، 25لاکھ روپے ، کارموٹر سائیکل اور قیمتی سامان چوری ۔تھانہ لوہی بھیر کے علاقہ میں چور راجہ مشتاق کے گھر سے 85 تولے سونا ۔ شہزادٹاون پولیس کو محمد طیب نے بتایاکہ انکے گھر چٹھہ بختاو ر سے چور تالے توڑ کر لاکھوں روپے اور زیورات لے گئے۔کراچی کمپنی پولیس کو محمد واجد نے بتایاکہ دو نامعلوم ڈاکووں نےان سے موبائل اور نقدی چھیننے کی کوشش کی، مزاحمت پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا گیا ۔یہ گزشتہ ہفتے کے چند واقعات ہیں ایسے ہزاروں واقعات گزشتہ تین ماہ کے دوران جڑواں شہروں کے مکینوں کے ساتھ پیش آچکے ہیں۔مقدمات درج ہیں کوئی ڈاکو،وارداتیا پکڑا نہیں گیا۔۔۔۔!!
عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی ان واقعات کے سدباب کیلئے واضح کوششیں کسی لیول پر نظر نہیں آرہیں اور روز نئے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔۔ ہارون الہی کے ساتھ افسوس ناک واقعہ پر اس کا رد عمل جانا تو جس نقطے کی طرف اس نے اعشارہ کیا وہ بھی ہمارے پورے معاشرے کیلئےسوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے۔۔!
اس نے کہا کہ "ہمارے ساتھ ڈکیتی کی واردات کرنے والے دونوں نوجوان بات چیت اور روئیےمیں انتہائی پڑھے لکھے اورمہذب دکھتے تھے،دونوں ڈریسنگ سے بھی کسی اچھے گھرانے کے لگتے تھے۔ مجھے اپنے مال کے نقصان سے زیادہ اس بات کا خیال آرہا تھا کہ یہ بچےان برے کاموں میں کیوں آئے۔۔کوئی بھی والدین نہیں چاہتے کہ انکے بچے ڈاکو بنیں ؟؟ آخر ایک دن انکا برا انجام ان سے زندگی چھین لے گا۔۔۔!” اس آخری بات میں بہت سارے سوالات ہیں ہم انفرادی واقعات پر تو شوربھی مچاتے ہیں اور عارضی واویلا بھی ہوتا ہے مگر مسلئے کی جڑ تک کوئی نہیں جاتا۔وارداتوں کے پیچھے محرکات کو کوئی نہیں دیکھتا کہ نوجوان کیوں ،ڈاکٹر،انجینئر یا کوئی پروفیشنلز بننے کی بجائے ڈاکو بن رہے ہیں؟؟ میراخیال ہے کہ پولیس کو ان وارداتوں کی روک تھام کیلئے نئی حکمت عملی مرتب کرنی پڑے گی۔جبکہ ماہرین سماجیات کو ان وجوہات کی کھوج لگا کر انکے حل کیلئے لائحہ عمل دینا ہوگا تاکہ من حیث القوم ان وجوہات کو ختم کرکے ہم اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل دے سکیں۔۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے