صرف ایک دِن کی عورت!

بلیو ۔۔ ہاں بلیو کلر تھیم ہی بیسٹ رہے گی ، لیکن لاسٹ ائیر تو انڈیگو تھی ،وہ کیوں نہیں ،بھئی! گزشتہ برس بھی انڈیگو کا انتخاب ہم نے کیا تھا ، عالمی سطح پر ویمنز ڈے کےلیے کلر تھیم ریڈ، یعنی لال یا سرخ رکھی گئی تھی ، لیکن ساتھی خواتین کی اکثریت کے کہنے پر ریڈ کو انڈیگو میں تبدیل کردیا، 2017 میں ویمنز ڈے کی تھیم تھی ،’’ویمن ان چینجنگ ورلڈ‘‘

اس سال اقوام متحدہ نے عالمی یوم خواتین کے لیے بلیک اینڈ وائٹ تھیم کلرکا فیصلہ کیا۔ دیہی اور شہری خواتین کی سرگرمیاں ان کی زندگیوں میں تبدیلی لا رہی ہیں ، اب وقت ہے نام بنانے کا۔ ’’ٹائم از ناؤ‘‘ اور ایسی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بلیک اینڈ وائٹ کلر کو اپنایاگیا۔

لیکن ہمارے معاشرے میں بلیک اینڈ وائٹ سے سوگ ،بزرگی اور نجانے کیا کیا منسوب ہے ، اس لیے بلیو یعنی نیلےرنگ کا انتخاب مشترکا فیصلے سے کیاگیا۔۔بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ بلیو کا انتخاب خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی مشہور ہوگیا، اور اگلے روزماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو عزت دینے اور ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے کئی مرد بھی نیلا رنگ زیب تن کرکے آئے ۔

اب اگلامرحلہ تھا، خواتین کے حقوق ، آگہی کے لیے لکھنا ۔۔ کیا لکھنا ضروری ہے ؟ کیا خطاب کرنا ضروری ہے ؟ کیا سیمینار میں خواتین کی لاچارگی سے متعلق نکات اٹھانا ضروری ہے ؟پھرسوال اٹھا ۔۔خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے کیوں نہیں لکھا،،

اب اگر گزشتہ برس آزاد نظم لکھ بھی لی ، تو ضروری ہے کہ اس بار بھی کچھ پھڑکتا ہوا لکھا جائے ۔۔ 8-10-12 تاریخ کے ساتھ تحریر کی اہمیت کم ہوتی جائے گی ۔ پہلے تو حقوق نسواں کی چیمپئن بنی ہوئی تھیں ،، اب کیوں قلم خاموش ہے ؟ کیا خیالات کو بھی تالا لگا دیا گیا ہے ، کسی نے لکھنے سے منع کیا ہے ؟ کوئی وجہ ، دلیل ،منطق کچھ تو ہوگا۔ لیکن نہیں ایک لفظ بھی تو آیا ہو زبان پہ، دل میں ، دماغ میں یازیر قلم ۔۔ کچھ بھی تو نہیں ،،ایسے تو میں بھی خود اپنے آپ میں مرجاؤں گی تو کیا لکھنا ضروری ہے؟ یا خیالات و واقعات کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔۔

بس! کچھ نہیں ۔۔چلیں ! خواتین کے عالمی دن کو سیلیبریٹ کریں ، پر کیسے؟

دنیا بھر میں تو خواتین کے مساوی حقوق کے لیے ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ کہیں سیمینارز ہیں ، تو کہیں مختلف تقاریب ،سعودی عرب میں خواتین نے ریس میں حصہ لیا، پاکستان میں خواتین کمانڈوز نےمہارت دکھائی، کینیا میں خواتین نے مارشل آرٹس کے جوہر دکھا کر سب کو حیران کیا اور چین میں خواتین نے برف پر ہینڈ بال گیم کھیل کرانجوائے کیا۔

جب یہ سب ہورہا ہے ، تو میں کیوں سیلیبریٹ کروں ، اپنے اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو ہر اخبار ، میڈیا ، سوشل میڈیا پر سراہا جارہا ہے ، ڈرامے ، فلمیں ، تحریریں، مزاح ، کلپس، کوئی لکھ رہا ہے تو کوئی ویڈیو بناکر خراج تحسین پیش کررہاہے ، کسی نے پروفائل پک بنا کر اپنا۔۔کرتویہ۔۔ پوراکیا،اسٹار کا نام لے کر خود اسٹارز بن گئے ،،

کرشناکوہلی،، جو سندھ کے بے آب وگیاہ ریگستان سے اٹھ کر ملک کے سب سے بڑے ایوان میں سینیٹر منتخب ہوگئیں ، ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ میں دبنگ انداز سے پاکستان کا موقف بیان کیا، ثمینہ بیگ نے کئی پہاڑوں کی بلند چوٹیاں سرکرلیں۔ مریم اورنگزیب اور مریم نواز کے چرچے بھی رہے ،ملالہ کا چھوٹی لڑکیوں کی تعلیم پر پیغام ہو، شرمین کی ڈاکیو منٹری فلموں کا ذکرہو، پروین رحمان ، سبین محمود ، عاصمہ جہانگیر کاتذکرہ ہو،مختلف خواتین کھلاڑی ہوں، شوبزاسٹارز ہوں یابقید حیات سوشل لیجنڈز۔بلقیس ایدھی سب ہی کا نام تو آیا۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ خواتین کی عظمت کو سلام کرنے کیلئے جتنے لوگوں نے آواز بلند کی ،شاید اتنی ہی تعداد میں زبان دراز بھی سامنے آئے، ایسے ہی لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیےسوشل میڈیا پر چبھتے ہوئے الفاظ استعمال کیےگئے۔بیہودہ زبان سے ان کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی جو شتربے مہار تھے۔۔

کیا کوئی دکھیارو ں کو یاد کرنے والا بھی ہے ؟؟؟ اس اہم دن پر ان خواتین کا ذکر کیوں کریں جس سے ملک کی جگ ہنسائی ہو۔۔دنیا داری کے پیچھے قبیح حرکات پر پردہ ڈال کر اپنا معاشرہ بگاڑ لیں ، وہ جو بن موت مارے گئے یا جن پر ظلم ہو، ان کا ذکر کیوں نہیں ؟

اسی سال خواتین کے عالمی دن سے پہلے پہل ایسے واقعات ہوئے کہ روح کانپ اٹھی ،

مردان کی ننھی پری 4سال کی اسما14 جنوری کو لاپتہ ہوئی ۔15جنوری کو گھر کے قریب گنے کے کھتیوں سے اس کی لاش ملی۔زیادتی اور قتل اس کا مقدر بنی ۔کیا اس نےاپنی ذات سے اداؤں سے لباس سے کسی کو لبھایا ہوگا؟ کیا4 سال کی بچی نے دعوت ِگناہ دی ہوگی؟ اپنی ہوس ، اپنی زیادتی چھپانے کے لیے ابن ِ آدم کس طرح دوسروں کےسر اپنا گناہ ڈال دیتے ہیں ۔

ایبٹ آباد کی ڈاکٹر عاصمہ رانی 29 جنوری کو قتل کردی گئی ، جرم تھا تو اتناکہ اس نے مجاہد آفریدی کا رشتہ منع کردیا تھا۔کیا خواتین کو اتناحق بھی نہیں کہ وہ اپنی پسند سے جیون ساتھی کا انتخاب کرسکیں۔

اسلام آباد کی 8 سال کی ثمرین جنسی زیادتی کے بعدقتل کر دی گئی ۔8 مارچ کوعالمی یوم خواتین پراس کو دفنایاگیا،اس کی خطا ۔۔ کیا لڑکی ہونا تھا؟

بنت حوا کب تک ان اذیتوں سے گزرے گی؟کیا پورا معاشرہ ہی بیمارذہنیت کا ہوگیا ہے؟

اگر عورت جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت کرے تو تمام ترذمہ داری اس کے ’’بے حیا‘‘ یا ’’باپرد نہ ہونے‘‘ پر ڈال دی جاتی ہے۔۔ اسی طرح بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کو مغربی تہذیب کے زمرے میں ڈال کر خود کو،اپنے ضمیر کودھوکے میں رکھا جاتا ہے ۔

ہماری تہذیب مشرقی ہے تو اس سے مراد شرم و حیا ہے؟ مگر کس کے لیے؟ صرف عورت کے لیے؟ کسی مشرقی مرد کے بارے میں اس طرح کیوں نہیں کہا جاتا ؟

پڑھے لکھے معاشرے اور اعلیٰ اداروں میں بھی ذرا مختلف طریقے سے اسی قسم کے اصولوں پر کام کیا جاتا ہے ، خواتین کو ہراساں کرنا، لغو اور ذومعنی جملوں کا استعمال ، غیر اخلاقی اشارے ، ڈرانا اور دھمکانا۔۔ جبکہ اقبال نے کہاتھا

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیاسمجھے گاوہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نہ پردہ ، نہ تعلیم ،نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کاخورشید بہت جلد ہوازرد

یہ سب اک طرف۔۔ خواتین کی جرات مندی کا اقرار اور بے بسی کا پرچار صرف 8 مارچ کو ہی کیوں کیا جاتا ہے ، باقی 364 دن کیا ان خواتین نے کام نہیں کیا ،یاان کی خدمات کا اعتراف کرنا منع ہے ، یا عورت بے مول ملنے والی شے ہے ، جس کے دکھوں کا مداوا یا فقط ذکر 8 مارچ کوہی ہوگا،

کیاقوموں کو بنانے کی اہم ذمہ داری خواتین کی نہیں ، کیا اسے خاموش کراکے، چادر اور چار دیواری اور ایک دن تک محدود کرکے نسلیں سنواری جاسکتی ہیں ؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے