سیلف مینٹی نینس

زندگی کی مصروفیات کے باعث کافی عرصہ اپنے قارئین سےقلمی رشتہ برقرار نہ رکھنے پر معذرت کے ساتھ اپنے قارئین خاص طور پر اپنی پیاری بھابھی اور دوست ڈاکٹر ” ث ” کی فرمائش پر ایک اور کالم آپ کی نذر کر ر ہی ہوں ۔ آج کی میری قلمی تخلیق کا موضوع ” سیلف مینٹی نینس” ہے۔

"مینٹی نینس” کا تصور عام طور پر مشینری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جب مسلسل استعمال سے کسی مشین کی کارکردگی اور ایفیشینسی متاثر ہو کر کم ہو نے لگتی ہے تو اسکی مینٹی نینس کی جاتی ہے یا کرائی جاتی ہے تا کہ وہ اپنی optimised کارکردگی اور ایفی شینسی پر کام کر سکے۔ انسانوں کے معاملے میں سیلف مینٹی نینس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کے کسی بھی معاملے میں اپنا فطری رویہ برقرار رکھے۔ فطری رویہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی بھی دوسرے انسان کیساتھ معاملہ طے کرتے ہوئے اپنا فطری رسپونس دے۔ یہ فطری رویہ ہر انسان کا مختلف ہوتا ہے۔

ایک انسان کا فطری رویہ تقریبا ہر طرح کے انسانوں کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے۔ اسکی وضاحت اس طرح سے کی جا سکتی ہے ، عین ممکن ہے کہ ایک انسان اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو نظر انداز کر دیتا ہو جبکہ دوسرا شخص اپنے اوپر ہونے والی تنقید پر غصے کا اظہار کرتا ہو۔ ایک تیسرے شخص کا رویہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ تنقید برائے تنقید کرے۔ جس انسان کا فطری رسپونس مختلف انسانوں کے لئے مختلف ہوتا ہے وہ اپنے کردار کی بلندی پر نہیں ہوتا۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کئی نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ زندگی کی کئی تلخ حقائق کے تجربات سے ایک انسان کا فطری رویہ میں منفی تبدیلی آ سکتی ہے۔ مثلا اگر ایک انسان مسلسل محنت کے باوجود اپنے نیک مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس شخص کا محنت کی طرف فطری رویہ منفی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ اس ولولےاور جوش سے محنت نہیں کرے گا جس ولولے سے اس نے ناکامی سے پہلے محنت کا ارادہ کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ انسان مسلسل پریشانی کا شکار رہے گا۔ مایوسی کے ساتھ ساتھ اس کا فطری رویہ بھی برا سے برا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اس طرح انسان زوال اور پستی کی طرف چلا جاتا ہے۔

سیلف مینٹی نینس کی ضرورت اسلئے بھی زیادہ ہے تا کہ معاشرہ زوال سے بچ سکے ۔اگر ایک انسان کا زندگی میں بہت برا تجربہ ہی کیوں نہ ہو ا ہو، وہ ا گر کسی بھی کام کی طرف اپنا فطری رویہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دنیامیں اچھائی باقی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر انسان کا فطری رویہ کسی بھی کام کی طرف اچھا اور مثبت ہوتا ہے؟ جی نہیں ! ہر انسان کا فطری رویہ اچھا اور مثبت نہیں ہوتا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کن لوگوں کا فطری رویہ اچھا ہوتا ہے اور کون سے ایسے لوگ ہیں جن کا فطری رویہ نا مناسب ہوتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ ایسے تمام لوگ جو اپنی اندر کی دنیا سے واقف ہیں انکا فطری رویہ انتہائی اچھا اور مثبت ہوتا ہے۔ اپنی اندر کی دنیا کی پہچان رکھنے والے سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات اور تجربات سے گزرنے کے باوجود کسی بھی معاملے کی طرف اپنا فطری رویہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس وہ لوگ جن کی اپنی اندر کی دنیا سے ملاقات نہیں ہوئی ان کا فطری رویہ اچھا نہیں ہوتا اور ان کے لئے زندگی کے کسی برے تجربے کے بعد اپنا فطری رویہ برقرار رکھنا دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔ سیلف مینٹی نینس میں ناکامی کے باعث یہ لوگ اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں۔سیلف مینٹی نینس کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے باطن سے ملاقات کے لئے خود کو پہچاننے کے سلسلے میں منعقد کئے جانے والے سیمینارز اور لیکچرز میں شرکت کرے۔ اگر دنیا کے تمام لوگ اپنا مثبت فطری رویہ برقرار رکھنے کی کوشش بھی کریں تو کرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے ایک صحت مند معاشرہ جنم لے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے