سیاسی جُوتا گردی !

ہماری قوم میں ایک عام عادت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے رسم اپنا لیتی ہیں۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہم نے دوسرے معاشروں سے بہت کچھ اپنایا ۔ہمارے یہاں ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مغربی معاشروں کے رسم ورواج اپنانا جدت پسندی ہے۔ہم نے امریکا کی طرح ترقی تو نہ کی مگر ان کے دیکھا دیکھی نوجوان نسل نے بیگی پینٹ پہننا شروع کردی۔ہم چین کی طرح لوہے کی صنعت کو ملک میں مستحکم تو نہ کرسکے لیکن ہماری خواتین نے چینیوں کی طرح ابلی سبزیاں کھانی شروع کردیں۔ہم بھارت کی طرح اپنی آئی ٹی انڈسٹری تو مظبوط نہیں کرسکے مگر ہم نے بھارت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زبان کو چھوڑ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا شروع کردی۔

14دسمبر دوہزار اٹھا رہ کو امریکی صدر ججارج ڈبلیو بش کو ایک اجلاس میں جوتا مارا گیا۔17دسمبردوہزار اٹھارہ کو وائٹ ہاوس کے باہر یہ واقعہ جارج ڈبلیو بش کے ساتھ ایک بار پھر رونما ہوا۔اپریل دو ہزار نو میں انڈین نیشنل کانگریس کی امیدوار نوین جندال کو بھی ایک مظاہرے میں جوتے کا نشانہ بنایا گیا،ان کے بعد اسی سال بی جے پی کے رہنما لعل کرشنا ایڈوانی پر بھی جوتا پھینکا گیا۔ایل کے ایڈوانی بھی دو ہزار نو میں جوتے کا شکار ہوئے۔ہم پاکستانیوں نے جب دنیا میں اس قسم کے واقعات کو دیکھا تو بے حد خوشی کا اظہار کیا کے مسلمانوں کے قاتلوں پر جوتے پھینکے جارہے ہیں۔یہ خوشی کسی حد تک ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتی تھی کیوں کہ ان افراد کیلئے ہمارے دلوں میں نفرت موجود تھی۔جس کی وجہ امریکا کی مسلم مخالف پالیسیاں اور بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم تھے۔المیہ یہ تھا کہ ہماری قوم نے اس بات کو خوشی کی حد تک محدود نہیں رکھا۔ان واقعات کے بعد پاکستان میں بھی ایسے واقعات سامنے آنے لگے ۔پاکستان میں بھی سن دوہزار آٹھ اور سن دوہزار نو میں سیاسی شخصیات پر جوتے پھینکے گئے۔لیکن ان واقعات کی تعداد زیادہ نہیں تھی یہ واقعات تھم گئے۔

کچھ دن قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال پر ایک مخالف نے جوتا پھینکا،اس واقعہ کے بعد مسلم لیگ نواز کے ہی رہنما اور پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف پر ایک طالب علم نے سیاہی پھینک دی جس سے ان کا چہرہ خراب ہوگیا۔سوشل میڈیا پر ان واقعات کے بعدسیاسی رہنماؤں کے مخالفین اور ہمایتیوں کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی۔کسی نے اس واقعہ پر خوشی کا اظہار کیا تو کسی نے اس کی مذمت کی۔یہاں ایک مثبت بات یہ سامنے آئی کے تمام جماعتوں کے قائدین نے ان واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔خدا جانے یہ مذمت دل سے تھی یا الفاظ کی حد تک محدود ۔خیر دلوں کے حال خدا جانے سیاسی قائدین کی ان واقعات کی مذمت ایک اچھا اقدام تھا ۔
ان حادثات کے بعد مہذب معاشرے کے علم و دانش والے تمام افراد فیس بک اور ٹویٹر پر ان واقعات پر خوشیاں منانے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے نظر آئے ساتھ ہی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا یہ ماننا تھا کہ اگر اس قسم کے غیر اخلاقی اقدامات کی مذمت نہ کی گئی ،ان کی حوصلہ شکنی نہ ہوئی انہیں روکا نہ گیا تو یہ رواج عام ہوجائے گا ،جس سے ایک جانب تو نامور شخصیات کی تذلیل ہوگی تو دوسری جانب ملک میں انتشار پھیلنے کا بھی خطرہ ہوگا۔اور ایسا ہی ہوا ۔جامعہ نعیمیہ
کی تقریب میں نواز شریف کی جانب سے شرکت کی گئی۔نواز شریف جیسے ہی تقریب میں پہنچے تو وہاں موجود ایک نوجوان نے ان پر جوتے اچھال دیا۔ابھی نواز شریف پر جوتا اچھالنے کے چرچے ہر جانب جاری تھے کہ ایک اور بڑی خبر سامنے آگئی کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی ایک شخص نے جوتا مارنے کی کوشش کی۔اس کے بعد بھی عمران خان کو جوتا مارنے کی کوشش کی گئی ۔

جن افراد کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کی تضحیک کی گئی ان میں سے کچھ نے اپنے عمل کوسیاسی مخالفت کہا کچھ نے کہا کے ان کا اقدام مذہب کی بنا پر تھا جبکہ ایک نے تو یہ دعویٰ کیا کہ اسے سیاسی رہنما کے مخالف نے جوتا مارنے کو کہا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا مخالفت میں ایسا کرنا درست ہے؟کیا یہ خبر انٹرنیشنل میڈیا پر نہیں گئی ہوگی؟اگر غیر ملکی میڈیا نے یہ خبر دکھائی ہوگی تو ان ممالک میں پاکستان کا کیا امیج بنا ہوگا۔بہت عام سی بنات ہے کہ مذہب کے معاملات میں جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے۔لیکن ملک میں اس وقت عدالتیں آزاد ہیں ۔وہ تمام معاملات کی چھان بین کر رہی ہیں ۔اور امید ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی معاملے میں جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزا بھی دیں گی چاہے وہ کوئی وزیر ہی کیوں نہ ہو۔سیاسی مخالفت بھی ہونی چاہیے یہی جمہوریت ہے لیکن اس مخالفت کی بنا پر کسی کی بھی تضحیک کرنا درست نہیں۔

ہمیں ان معاملات کو سنجیدگی کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا،اگر یہ رواج چل نکلا تو پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ہر معاشرے میں رہنے والے افراد کو کسی نہ کسی سے اختلاف ہوتے ہے۔کسی کو مولوی پسند نہیں تو کسی کو لبرل پسند نہیں۔کسی کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے فرسودہ ذہن کے نظر آتے ہیں تو کسی کو دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے گناہگار۔کسی کو بلا پسند نہیں تو کسی کو پتنگ۔کسی کے دل کو تیر کا نشان اچھا نہیں لگتا تو کسی کو شیر وحشی لگتا ہے۔اگر ہمارے معاشرے سے برداشت اسی طرح ختم ہوگئی تو ایسا ردعمل ہی سامنے آئے گا۔معاشرے کا مہذب شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنی پسند کا انتخاب ووٹ کی طاقت سے کرنا ہوگا۔ہمیں سیاسی تحریکیں چلانی ہوں گی۔اپنے پسندکے امیدواروں کو اسمبلیوں میں لانا ہوگا اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملکی حالات کو بہتر بنانا ہوگا۔
سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنما کو ادا کرنا ہوگا۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی جلسے یا اجتماع میں کسی دوسرے پر لفطی نشتر نہیں داغے جائیں گے۔سیاسی رہنماؤں کو خود سے قومی مفاد میں یہ عہد کرنا ہوگا کہ اب وہ کسی جلسے اور ورکر کنونشن میں کارکنوں کے سامنے کسی دوسرے سیاست دان یا ادارے کے لئے بدزبانی نہیں کریں گے نہ ہی کارکنوں کو کسی دوسرے کے خلاف اکسائیں گے۔پاکستان کی سیاست سے مارونکلو اور جلادو کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ہمیں دوسرو ں کی ذاتی زندگی اور خاندان پرجلسوں میں تنقید کے رواج کو بھی ختم کرنا ہوگا۔

سیاسی قائدین کی جانب سے ایسے واقعات کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی سامنے آنے چاہیں کہ اگر کوئی کارکن اس قسم کی سرگرمیوں نہ ان کی تشہیر میں ملوث پایا گیا تو ا س کی پارٹی رکنیت معطل کردی جائے گی۔سب کو مل کر عوام میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ اپنی نفرت اور محبت کے اظہار کا بہترین ذریعہ ووٹ ہے۔جس سے محبت ہے اس کی ڈبل ڈور پر لٹک کر سیاسی غازی یا شہید بننے کی کوشش کے بجائے اسے ووٹ دیں۔اور اسی طرح نفرت میں جوتے مارنے کے بجائے اسے انتخابات میں مسترد کر کے اس کی سیاست کا خاتمہ کردیں ۔یہ مہذہب اور جمہوری معاشروں کا طریقہ کار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے