گھر آیا موقع کیوں جائے؟

جناب صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بننے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اپنی عمر پوری ہونے کا بھی انتظار نہ کیا۔ اور ان سے بھی زیادہ جلدی سینیٹرز حضرات کو تھی‘ جو انہیں ووٹ دینے کو بے تاب تھے۔ کسی پرانے سینیٹر نے بھی یہ تکلف نہیں کیا کہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے امیدوار کی عمر ہی دیکھ لیتے۔ آدھے سینیٹرز تو چھ سال پرانے تھے۔ نئے چیئرمین کو ووٹ دیتے وقت اپنی عمر ہی دیکھ لیتے۔

پارلیمنٹ ہائوس کے کسی دربان سے پوچھ لیتے۔ ووٹ مانگتے وقت کم از کم میاں رضا ربانی سے ہی دریافت کر لیتے کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ لیکن یہ سوال رضا ربانی صاحب کو چوکنا کر دیتا۔ انہیں اپنی عمر یاد آ جاتی۔ ہمارے ملک میںسینیٹرز کی کل تعداد 104 ہے۔ ہمارے نئے چیئرمین ذرا تکلف کر کے کسی سے پوچھ ہی لیتے کہ سینیٹ کے چیئرمین کے لئے کتنی عمر مطلوب ہوتی ہے؟ میرا خیال ہے انہیں صبح اٹھتے ہی دوستوں نے بتا دیا ہو گا کہ ہم آپ کو چیئرمین شپ کا امیدوار بنا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے سنجرانی صاحب نے سوچا ہو کہ جب مجھے سینیٹ کا چیئرمین ہی بنایا جا رہا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ میری عمر 45 سال سے اوپر ہے۔ ویسے ان کی عمر ہے کیا؟ مجھے تو اس کا پتا نہیں۔ لیکن کیا سنجرانی صاحب بھی اس سے ناواقف تھے؟ ان لوگوں کو تو پتا ہونا چاہئے تھا جنہوں نے انہیں رات گئے گھر سے جگا کر بتایا ہو گا کہ ہم آ پ کو سینیٹ کی چیئرمین شپ کا امیدوار بنا رہے ہیں۔ دونوں فریقوں نے جلدی میں عمر کا خیال نہیں کیا۔ ان کی تعلیمی قابلیت تو ماشاء اللہ کافی ہے۔ میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے اور اس سے آگے پڑھنے کے لئے فارم بھرتے وقت کسی درجے میں تو انہوں نے عمر لکھی ہو گی، کیا سکول اور کالج میں بھی کسی نے‘ ان کی عمر نہیں پوچھی؟

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو امیدوار تو ٹکر کے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ سنجرانی صاحب کو عین وقت پر عمر کی کمی کا پتا چل گیا ہو۔ انہوں نے اپنے حریف‘ راجہ ظفر الحق کو کان میں بتا د یا ہو کہ ”امیدوار بننے کے لئے میری عمر تو کم ہے۔ کیا آپ کی عمر مناسب ہے؟‘‘

ا س پر راجہ صاحب بھی نکتے کی بات نہ سمجھ پائے اور امیدواری کی سرشاری میں ووٹ قبول کرتے رہے۔ ورنہ امیدوار بنتے وقت‘ ایک لمحے کے لئے سوچ لیا ہوتا کہ چیئرمین بننے کی عمر کیا ہوتی ہے؟ راجہ صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے ہر ڈگری لیتے وقت اپنی ڈیٹ آف برتھ ضرور لکھی ہو گی۔ ممکن ہے انہوں نے سارے فارم ہی کسی دوست سے پُر کرائے ہوں؟ ایسا کون سا دوست ہے جو میٹرک سے لے کر اعلیٰ ترین ڈگری تک‘ داخلے کے پرفارمے میں تاریخ پیدائش ہی نہ لکھتا ہو؟ ہو سکتا ہے کہ راجہ صاحب کے زمانے میں تاریخ پیدائش لکھنے کا رواج ہی نہ ہو؟ جناب صادق سنجرانی کو سینیٹ کی رکنیت ہی نہیں بلکہ چیئرمین بننے کی عمر کا بھی پتا چلا لینا چاہئے تھا۔ کیا سینیٹ کے امیدوار کو‘ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مقابلے میں شرکت کے لئے کوئی فارم بھرنا ہو گا۔ یا ایسا ہوتا ہی نہیں؟ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ سنجرانی صاحب کو ذرا تکلف کر کے‘ خود ہی اپنے ایک آدھ ووٹرسے پوچھ لینا چاہئے تھا کہ ”سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے عمر کی حد کیا ہوتی ہے؟‘‘

بتانے والا بھی اپنی موج میں تھا۔ اس نے جواب دیا ”آپ نے صدر مملکت کی عمر پوچھی ہے کہ کیا ہونی چاہئے؟‘‘
سنجرانی صاحب نے سوچا ”کیسا بے وقوف ہے؟ میں سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے پوچھ رہا ہوں اور آپ مجھے صدرمملکت کی عمر بتا رہے ہیں‘‘۔

چیئرمین سینیٹ کے لئے انتخابی مقابلے کے میدان میں اترنے کو‘ سید مشاہد حسین نے (بقول نواز شریف) پچھلے ستر برسوں میں نجانے کتنی بار سوچا؟ گزشتہ ستر برسوں میں کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ ”آپ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے مقابلے میں اترنا چاہیں گے؟‘‘ لیکن شاہ جی من موجی انسان ہیں۔ انہیں بالغ ہوئے 45 سال بیت چکے ہوں گے۔ انہیں اچھی طرح علم ہو گا کہ صدر مملکت جب کبھی ملک سے باہر جاتے ہیں تو ان کی عمر کم از کم 45 سال ہونی چاہئے۔

میرا خیال ہے پارلیمنٹ ہائوس کے اعلیٰ یا بہت ہی اعلیٰ اہلکاروں میں سے کسی ایک نے‘ انتخابی مقابلے کے فارم چیک کرتے ہوئے دیکھا ہی لیا ہو کہ ”امیدوار تو ابھی کم سن ہے۔ یہ کیوں امیدوار بننے کے لئے مقابلے میں اتر آیا؟‘‘سنجرانی صاحب ”ایک زرداری بہت ہی بھاری‘‘ یا عمران خان کو ہی‘ اپنی عمر بتا دیتے۔ زرداری صاحب تو خود صدر رہ چکے ہیں۔ انہیں یقینا اپنی عمر کا پتا ہو گا۔ وہ ازراہِ احتیاط امیدوار سے ہی اس کی عمر پوچھ لیتے۔ اب تو سنجرانی صاحب سینیٹ کے چیئرمین بن گئے۔ دیکھئے! ان کے ساتھ یا کرسی کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ وزارتِ عظمیٰ کے اگلے امیدوار‘ جناب شہباز شریف جب ذمہ داریاں سنبھالیں گے تو مناسب ہو گا کہ وہ بڑے بھائی صاحب سے پوچھ رکھیں کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے وقت‘ عمر کیا ہونی چاہئے؟ شہباز صاحب ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں۔ اگر انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے‘ اپنا نام یا اپنی عمر غلط بتا دی تو کیا ہو گا؟ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے فرزند‘ حمزہ شہباز کو ساتھ لے جائیں۔ گھر میں آئی ہوئی وزارتِ عظمیٰ ‘محض اس وجہ سے دھری نہ رہ جائے کہ والد صاحب اپنی عمر بھول آئے ہیں۔ حمزہ کی عمر تو اس وقت ماشاء اللہ وزارتِ عظمیٰ کے لئے موزوں ہے۔ گھر آیا موقع کیوں جائے؟ ایسی صورت حال میں مریم نواز‘ پوری وزیراعظم بننے کے اہل ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ خواتین اپنی عمر 25 سال سے اوپر بتانا گوارہ نہیں کرتیں۔ ویسے ان کی عمر پچیس سے توکم نہیں لگتی۔

چلتے چلتے:۔ اگر اسحاق ڈار دوبارہ پاکستان کے وزیر خزانہ بن گئے تو ہمارا محفوظ زرمبادلہ‘ سِکوں میں رکھنا پڑے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے