خاندانِ شریفاں کا دور ختم؟

لگتا ہے شریف خاندان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ دو ماہ کے اندر ہی پنجاب اور مرکز میں موجودہ حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور نیا نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ آئے گا۔ اس وقت ہی خصوصی عدالت میں چلنے و الے مقدمات میں شریف خاندان کو کرپشن پہ سزائوں کا فیصلہ ہو گا۔

یوں نگران حکومتیں آتے ہی‘ پنجاب میں دس سال اور مرکز میں پانچ سال بعد شریف خاندان کی حکومت ختم ہو گی۔ اگرچہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اگلا الیکشن بھی جیت سکتے ہیں‘ یا نگران حکومتیں ان کی مرضی کی بنیں گی جیسے 2013ء میں بنی تھیں۔ مرکز اور پنجاب میں مرضی کے لوگ نگران حکومت میں شامل ہوں گے کیونکہ آئین کے تحت اپوزیشن اور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے مل کر نگران حکومتوں کے سیٹ اپ کو فائنل کرنا ہے۔ لیکن آئین کچھ اور بھی کہتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ نواز شریف کوشش کریں گے کہ وہ اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لائیں؛ تاہم قانون کے تحت آپ کو اپوزیشن لیڈر کی مرضی بھی لینا ہوتی ہے۔ اگر اپوزیشن لیڈر اپنی مرضی نہ دے تو پھر معاملہ ہائوس کی چھ رکنی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے اور اگر کمیٹی بھی ایک نام پر راضی نہ ہو تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں نواز شریف اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم اس دفعہ لا سکیں گے یا نہیں؟

میرا خیال ہے کہ یہ مشکل اور بالکل ناممکن ہوگا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلی یہ ہے اگر نواز شریف اپنا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی سینیٹ میں اپنا چیئرمین سینیٹ نہیں لا سکے حالانکہ ان کے پاس اکثریت تھی‘ تو پھر تسلی رکھیں کہ وہ نگران وزیراعظم بھی نہیں لا سکیں گے۔ اس دفعہ زرداری صاحب نواز شریف کے ساتھ مل کر کھیلنے کو تیار نہیں ہیں‘ لہٰذا زرداری صاحب نے سینیٹ میں بھی نواز شریف کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے عمران خان کا ساتھ دینے کو مناسب سمجھا۔

اس بار نگران حکومت میں بھی یہی کچھ ہو گا۔ جب مرکز میں زرداری کے بنائے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وزیراعظم عباسی کے دیئے ہوئے نام نہیں مانیں گے اور اپنے نام دیں گے تو اس پر یقینا پھڈا ہو گا اور وزیراعظم عباسی اپوزیشن کے نام قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ یوں معاملہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا جہاں اپوزیشن اور حکومت کے برابر ممبران ہوں گے۔ وہاں بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وزیراعظم عباسی کے دیئے ہوئے نام پہ راضی نہیں ہوں گے۔ اور جب وہ قانونی اور آئینی مہلت ختم ہو گی اور معاملہ طے نہ ہو گا تو پھر فائنل نام طے کرنے کے لیے وہ سب نام الیکشن کمشنر کو بھجوائے جائیں گے اور پھر الیکشن کمشنر وہی نام فائنل کرے گا جو اپوزیشن پارٹیوں کا دیا ہوا ہو گا۔ اگر یقین نہیں آتا کہ نگران وزیراعظم وہی ہوگا جو اپوزیشن پارٹیاں منتخب کریں گی تو پھر دوبارہ بتا دیتا ہوں‘ اس وقت چیئرمین سینیٹ کن کا ہے؟

یہی کچھ پنجاب میں ہوگا‘ جہاں وزیراعلیٰ شہباز شریف قانون کے تحت تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر محمود الرشید سے مشورہ کریں گے اور مشترکہ نام لانا پڑے گا۔ جب اپوزیشن لیڈر وہ نام نہیں مانیں گے جو شہباز شریف دیں گے تو پھر پھڈا ہو گا۔ پھر پارلیمانی کمیٹی بیٹھے گی اور پھر وہاں بھی نام فائنل نہیں ہو گا اور پھر وہی ہو گا کہ الیکشن کمشنر ہی نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نام فائنل کر کے اعلان کرے گا۔

آپ پھر حیران ہوں گے کہ پچھلی دفعہ کیسے نگران وزیراعظم کھوسو اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی بن گئے تھے؟ اس کی وجہ یہ تھی 2013ء میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ مل کر سیاسی میچ کھیل رہی تھیں۔ باریاں لگی ہوئی تھیں۔ پہلے دونوں پارٹیوں نے 2008ء میں وزارتیں بانٹ کر میچ کھیلا اور پھر اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی کا بن گیا۔ یوں جب 2013ء میں نگران حکومتیں بنانے کا وقت آیا تو اس وقت مرکز اور پنجاب میں نگران حکومتوں کا فیصلہ نواز شریف، زرداری، شہباز شریف اور پیپلز پارٹی نے مل کر کرنا تھا۔ نجم سیٹھی چونکہ دونوں سیاسی لیڈروں کو مختلف مواقع پر اپنی صحافیانہ خدمات پیش کر چکے تھے‘ لہٰذا دونوں کو پتا تھا کہ یہ اپنا بندہ ہے اور اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ نجم سیٹھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ہمیشہ سے قابل قبول تھے۔ پھر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی سے کی گئی درجنوں خفیہ ملاقاتیں رنگ لا رہی تھیں‘ لہٰذا زرداری صاحب کو بھی علم تھا کہ اس دفعہ پنجاب سے وہ ووٹ نہیں لے سکیں گے لہٰذا ایسا بندہ لایا گیا جو نواز شریف اورشہباز شریف کو پنجاب میں سوٹ کرتا تھا۔ مرکز میں بھی یہی کچھ ہوا اور کمزور کھوسہ کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ نواز شریف اور عمران خان میں سے کسی ایک کو چنا جانا تھا۔ عمران خان نے الیکشن سے چند ماہ پہلے فخر سے بڑھک ماری تھی اگر وہ وزیراعظم بنے تو پھر امریکی ڈرون گرائیں گے۔ اس سے یقینا تشویش پیدا ہو گئی ہو گی کہ موصوف ملا عمر کی طرح جنگ شروع کرائیں گے۔ یوں عمران خان کا نام کاٹ دیا گیا۔ نواز شریف کو دس برس بعد تمام مقدمات سے نکال دیا گیا تھا۔

شہباز شریف پر جتنے ماورائے عدالت قتل کرانے کے مقدمات تھے‘ ان میں بھی ضمانت ہو گئی تھی اور وہ وزیراعلیٰ کے طور پر کئی برس سٹے آرڈرز اور ضمانت پر وزرات اعلیٰ چلاتے رہے۔ نواز شریف نے دس برس بعد اپنی چودہ سالہ سزا معاف کرائی اور اپنی اکیس سال کی پابندی کو ختم کرا کے نیب کو ہرجانے کے طور پر ادا کیے گئے چالیس کروڑ روپے بھی خاموشی سے واپس لیے‘ جس کا آج تک کسی کو پتا نہیں چلنے دیا گیا۔ یوں سب حالات نواز شریف اور شہباز شریف کے حق میں تھے۔

اس طرح سب ہائوس آف شریف کو واپس اقتدار میں لانے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ اور جیسے وہ چاہتے تھے وہی نتائج حاصل کیے گئے۔ میرے اپنے ضلع لیّہ میں نواز لیگ کے ایم این ایز اور ناخواندہ ایم پی اے کو رات گئے گھروں سے اٹھا کر بتایا گیا کہ وہ جیت گئے ہیں حالانکہ کچھ تو اپنی ہار مان کر سو چکے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ اب کون سی نئی قیامت گزر گئی ہے کہ حالات شریف خاندان کے خلاف ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کیا کچھ بدل گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان کے دھرنوں نے نواز شریف کا خوف قوم کے دلوں سے ختم کر دیا ہے۔

ان پانچ برسوں میں نئی نسل سامنے آئی ہے جسے پہلی دفعہ پاناما لیکس سے پتا چلا کہ شریف خاندان نے کتنی کرپشن کی ہے اور دنیا کے کن کن براعظموں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ ملک کے وزیراعظم دبئی میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے پکڑے گئے۔ نوجوان نسل کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ سیاست خدمت کے لیے نہیں بلکہ ذاتی لوٹ مار کے لیے کی جاتی ہے۔ نواز شریف کو دھچکا لگا کہ جنہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا وہ ان کے ساتھ نہیں رہے۔ سوال یہ ہے اس میں قصور کس کا ہے؟ جس طرح نواز شریف نے اداروں پر حملے کیے ہیں‘ اس کے بعد ان کا کوئی بھی‘ خواہ وہ کتنا ہمدرد ہی کیوں نہ ہو‘ ان کا دفاع نہیں کر سکتا۔

پانسہ پلٹ چکا۔ شریف خاندان جنرل مشرف کے مارشل لاء سے بچ کر دوبارہ اقتدار میں آ گیا تھا لیکن اب جو ماحول بن چکا ہے اور عمران زرداری الائنس‘ جس تیزی سے شریف خاندان کی سیاست ختم کر رہا ہے‘ مجھے نہیں لگتا کہ شریف خاندان اس طوفان سے نکل پائے گا۔ جنہوں نے شریف خاندان کو پہاڑ پر چڑھایا تھا، وہی اب نیچے اتارنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مکافاتِ عمل۔

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اس دفعہ تاریخ کے شفاف الیکشن ہوں گے‘ اس پر غور کریں۔ مطلب اب پنجاب کی بیوروکریسی‘ جو کرپشن پر نیب کے ہاتھوں گرفتار ہو رہی ہے، اور پریزائیڈنگ افسران کو دھاندلی نہیں کرنے دی جائے گی۔ سب جانتے ہیں یہ امپائر ملائے بغیر میچ جیت نہیں سکتے اور اب کی دفعہ امپائرز نیوٹرل رہیں گے۔ جب دو بڑے امپائرز ہی شریف خاندان کے خلاف ہو چکے ہیں تو پھر پیش گوئی کرنا کون سا مشکل کام ہے کہ ان کا اقتدار ختم ہوا۔اقتدار کا ہما بھلا کب ایک جگہ ٹکتا ہے۔ اس کے اڑنے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے