"اوقات "

صدف بنت انصاف 

اسلام آباد

۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کتے

کیا غضب کا آئیڈیا ڈھونڈا میری دوستوں نے،
زرا سنیں گے تو سمجھ آئے گی کہ کہ نوبت کہاں تک جا پہنچی ہے !
 
پچھلے دو ہفتوں تک ، ہم دوست جب بھی آپس میں بیٹھتے، کم سن بچوں کے ساتھ معاشرے میں ہونے والی تعلیمی اورجسمانی نا انصافیوں پہ خیالات کا اظہار کرتے رہتے، اسی دوران سبوخ سید نے اک لنک بھیجا جس میں بچوں کی بے بسی دکھائی گئی تھی اورانکی مدد کی اپیل کی گئی. میں نے اپنی دوست سے کہا، کچھ کرنا چاہیے، وہ محترمہ اسلام آباد کی اک ایڈووکیٹ ہے، اس معاشرے کے سارے پیچ داؤ سے واقف ہے. تو ذرا افسوس زدہ لہجے میں بولی !
 
"یار صدف ! اپنے اس خرچے سے کیا خاک کرپائیں گے، ان کاموں کےلئے کوئی پلیٹ فارم چاہیے، اور بچوں کے نام پہ کس منہ سے این جی او کھولیں ؟ صرف اسلام آباد میں ہی، چلڈرن پروٹیکشن کے نام پہ سترہ (17) رجسٹرڈ اینجوز کام کر رہی ہیں، اورغیر رجسٹرڈ اینجوز کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔
 
لوگ بچوں کے نام پہ اپنا گھر کا چولہا جلا رہے ہیں، اتنی این جی اوز کے باوجود بھی پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں جگہ جگہ بچے مزدوری کرتے یا بھیگ مانگتے دکھائی دے رہے ہیں. باقی شہروں کی تو بات ہی نہ کریں ۔
 
"میں اور تم اگر تمام وسائل بروئے کار لائیں
مختلف طبقات کا پہنچیں
اور اس کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم بنا بھی لیں تو
فنڈز دینے والے، پہلے سے ہی بہت سی بچوں کے تحفظ کے لیے قائم کئے گئے اداروں کو کو فنڈ دے رہے ہوں گے،
ہمیں تو ایک کوڑی بھی نہیں دیں گے
اس سے کیا خاک مدد ہو گی ؟ "
میں نے اک ٹھنڈی آہ بھری اور ان بھاری بھر کم دلائل کے سامنے خاموش ہو گئی
 
اک محترمہ نے میری مایوس سی شکل دیکھ کہ ذہن لڑایا، کہنے لگی،
اری ، ایک آئیڈیا آیا ہے ذہن میں
میں نے پوچھا کہ وہ کیا ؟
نہال ہو کر کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ انٹرنشنل لیول پہ جانوروں کی پروٹیکشن کے کافی فنڈز مل جاتے ہیں، اور ابھی پاکستان میں جانوروں پہ اتنا زیادہ کام شروع بھی نہیں ہوا، جبکہ مغربی ممالک تو ویسے بھی جانوروں کےنام پر بہت پیسا دیتے ہیں ۔
کیا کہتی ہو
کیوں نہ جانوروں کی دیکھ بھال کا کوئی کھاتا کھول لیں ؟؟
میں نے اپنا سوال داغ دیا !
” وہ تو ٹھیک ہے مگر انسانی بچے تو جانوروں سے پہلے ہیں نا ؟ "
 
آخر وہ بھی تو میری دوست ہےنا
بڑی دور کی سوچ رکھتی تھی،
کمال پھرتی دکھائی اس نے بولنے میں بھی
اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ڈولوں کو مٹکاتے ہوئے بولی ؛
"ہاں تو سمجھا کرو نہ یار، لیں گے جانوروں کے نام پہ ، مگر لگائیں گے بچوں پہ !
 
میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
میں نے اس کے آئیڈ یا کو خوب سراہا
پھر اسے لگاتے ہوئے کہا کہ
واہ ، کیابات کی ہے
لیکن پھرمجھے جانوروں کے ساتھ نا انصافی کاخیال آیا؛
” تو پھر جانور کہاں جائیں گے، جنکے نام پہ فنڈز لیں گے”
 
ہاتھ سر پہ مار کہ کہنے لگی،
"مڑا _____ یہ یورپین لوگ ،
 
جانوروں کو بہت عیش میں رکھتے ہیں،
مگر ہم انھیں بس زندہ رکھنے کے لیے بچوں کا بچا کچھا دیا کریں گے
انہیں انکی اوقات میں رکھیں گے،
تو بچے اور جانور دونوں کا کام نکل آئے گا
” ہاں _________
فرتے ٹھیک ایہہ !!!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے