نقیب قتل: ملزم راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے آئی جی سندھ نے مزید مہلت مانگ لی

کراچی: جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے شہری نقیب اللہ قتل کیس کے روپوش پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے آئی جی سندھ نے عدالت سے مزید مہلت مانگ لی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نقیب محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کی بیرون ملک فرار کی کوشش سے متعلق اسلام آباد اور کراچی ائیر پورٹ کی فوٹیجز حاصل کرلی ہیں، جو ویڈیوز ہمارے پاس ہیں وہ واضح نہیں، مزید فوٹیجز درکار ہیں۔

آئی جی سندھ نے عدالت سے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کتنی مہلت دی جائے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ آئندہ دو، تین روز میں راؤ انوار کی گرفتاری میں پیش رفت ہو جائے گی جس پر چیف جسٹس نے انہیں حکم دیا کہ پیر 19 مارچ تک رپورٹ جمع کرائیں اور اسی روز نقیب اللہ قتل کیس اسلام آباد میں سنیں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے کہا کہ راؤ انوار جو بھی کر رہے ہیں، غلط کر رہے ہیں، اب انہیں عدالت میں پیش ہوجانا چاہیے۔

صحافی نے سوال کیا کہ آپ عدالت کا سہارا کیوں نہیں لے رہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ سوال ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہو رہا تاہم بات ناکامی کی نہیں، کامیابی کے لئے سب کی کوششیں جاری ہیں۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ راؤ انوار کے بیرون ملک جانے کے کوئی شواہد نہیں ملے اور اب انہیں خود کو عدالت میں پیش کردینا چاہیے۔

مقتول نقیب اللہ کے والد محمد خان کا عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نقیب پورے پاکستان کا بیٹا ہے اور ہمیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔

مقتول کے والد نے کہا کہ ڈیل کی باتیں سراسر بے بنیاد ہیں، کوئی بھی رقم نقیب کے سر کے بال کے برابر بھی نہیں ہے، جب تک راؤ انوار گرفتار نہیں ہوتا عدالتوں میں پیش ہوتے رہیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر مفرور ملزم راؤ انوار کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک اور خط آیا تھا جس میں انہوں نے عدالت سے منجمد بینک اکاؤنٹس کھولنے کی استدعا کی تھی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ راؤ انوار کا ایک اور خط آیا اور معلوم نہیں یہ خط اصلی ہے یا نقلی، خط کو فائل میں رکھوا دیا ہے۔

رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے