لوٹے

لوٹے شروع ہی سے سستے ترین برتن رہے ہیں۔ ابتدا میں مٹی اور دھات کے ہوا کرتے تھے۔ اس سے کسی کی ستر پوشیدہ نہ تھی۔ ہر گھر، محلے، مسجد اور حجرے کی ضرورت ہوا کرتے تھے۔۔ اسے خاص کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پانی رکھنے کے بھی کام آتے تھے۔ دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لوٹوں کی جگہ دوسری اشیاء نے لے لی۔

پائپ آگئے اور یوں لوٹے صفحہ ہستی سے مٹنےلگے۔ ابھی ان کا وجود خطرے میں تھا ہی کہ جدت پسندی کی لہر چلی اور لوٹے بھی اس لہر میں آگئے۔ اب لوٹے اپنے جدید شکل و صورت کے ساتھ میدان میں اترے۔ مختلف دھاتوں سلور، پیتل، لوہے، سٹیل اور تانبے کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے لوٹے مارکیٹ میں مختلف رنگوں، شکلوں اور خصوصیات کے ساتھ نظر آنے لگے۔ مٹی کے سستے لوٹوں کی جگہ پلاسٹک کے لوٹوں نے لے لی۔ یوں ان کی قیمت بہت گر گئی جس نے اسے حقیر ترین چیز بنا دیا۔ لیکن خوبی قسمت تو دیکھئیے کہ پچھلے کچھ عرصے میں لوٹوں کی مانگ میں بے حد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اس کی اقسام بلحاظ ساخت و مقاصد کے تبدیل ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔

اب گوشت پوست کے لوٹے بھی دستیاب ہونے لگے ان لوٹوں کی خصوصیات ان گنت ہیں تبھی تو اس کی قیمت ہزاروں، لاکھوں سے ہوتی ہوئی کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔۔۔ موجودہ صورتحال میں لوٹے کی قدر و منزلت زیادہ ہوگئی ہے، اگر یہی حالت رہی تو قوی یقین ہے کہ اس سے بہتر اور منافع بخش کاروبار کوئی نہیں رہے گا۔ سنا ہے کہ لوٹوں کے ایک مالک نے ایک عجیب انداز اپنا لیا ہے۔

اور دو لوٹوں کی خریداری پر ایک لوٹا مفت میں دیتا ہے۔ یعنی دو کے ساتھ ایک لوٹا بغیر ادائیگی قیمت کے۔ یہ یقینا لوٹوں کے کاروبار میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔ کہتے ہیں یہ صاحب پہلے اس کے خلاف تھے لیکن اچانک یوٹرن لیتے ہوئے واپس لوٹے۔ ویسے یہ بھی سنا ہے کہ گیا محبوب لوٹ کے نہیں آتا اور اکثر یہی حال لوٹے مال کا بھی ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار انہونی بھی ہوجاتی ہے۔

یقین مانیں لوٹوں پہ آج کل بہار آئی ہوئی ہے دیکھتے ہیں یہ بہار کب تک رہتی ہیں۔ آیا یہ بھی لوٹ کے واپس چلی جائے گی یا نہیں۔ خیر جانا تو ہے اسے اک دن۔ خوشیوں اور آسائیشوں کو اک جگہ ٹکتے کسی نے دیکھا تھوڑی ہے۔ ایک اور بھی تھا جو سب کچھ لوٹ رہا تھا ۔ جب تک لوٹتا رہا اسے لوٹنے کی فکر نہ رہی لیکن جب لوٹا تو بھی احساس نہ رہا کہ وہ تو لوٹ کے واپس آیا تھا ایسا نہ ہو پھر لوٹنے کا موقع ہی نہ۔ملے۔ عجیب سی بات ہے کہ جس کے لوٹ آنے کا انتظار رہتا ہے وہ کبھی نہیں لوٹتا۔

اور جس پہ اعتبار رہتا ہے وہی ہمیشہ لوٹتا ہے۔ لوٹ لوٹ کا یہ کھیل ایک دن لوٹوں کو بھی لوٹ لے گا لیکن تب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ شاید پھر ان کو لوٹنے کا موقع ہی نہ ملے۔ کہتے ہیں صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے لیکن اگر بھولا ہوا شام کا ہو اور رات بھر گھر واپس نہ آئے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

ویسے ملک شام کی بات ہرگز نہیں کر رہا آپ گھبرائیں نہیں۔ جب سب لوٹوں اور لوٹ کی فکر میں ہیں تو آپ ہم کیوں شام کی فکر کریں۔ ویسے شام کے بعد رات لازمی ہوتی یے اور رات کو سونا تو پڑتا ہے۔ لیکن وہ والا سونا نہیں جو قیمتی ہوتا ہے۔ یہ وہ سونا ہے جسے آدھی موت کہا جاتا ہے۔ اور آدھی موت کے عالم میں بھی اکثر بدبخت لوٹے بغیر نہیں چھوڑتے اسی طرح جب سارا عالم سوجاتا یے تب کچھ لوگ اٹھ اٹھ کر روتے ہیں تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے اور عذتوں کے لٹنے کا ڈر نہ ہو۔

خیر انہیں کیا پتہ، رات ہی تو لوٹنے اور لٹنے کا وقت ہوتا ہے۔ دن بھر کے کام کاج کے بعد جب تھک ہار کر بندہ گھر کو لوٹتا ہے تو ساری تھکن دور ہوجاتی ہے لیکن جو لوگ سوتے رہتے ہیں ان کی بھینس بچے نہیں جنتی۔ لہذا جاگا کریں تاکہ بعد میں آپ کو کھیت چگنے کا پچھتاوا نہ ہو۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے