جلنے والے کا منہ کالا

اقوامِ متحدہ کے لیے ترقیاتی سروے کرنے والے آزاد ماہرین کا ایک گروپ ( ایس ڈی ایس این ) پچھلے چھ برس سے مسرت کا عالمی اشاریہ ( انڈیکس ) مرتب کر رہا ہے۔امسال کی رپورٹ کے مطابق ایک سو چھپن ممالک میں خوش رہنے کے اعتبار سے فن لینڈ ، ناروے ، ڈنمارک اور آئس لینڈ کے لوگ علی الترتیب اول ، دوم ، سوم ، چہارم درجے پر ہیں جب کہ دنیا کا سب سے غمگین ملک برونڈی ہے جس کے تاحیات صدر نے پچھلے ہفتے ہی خود کو ’’ عظیم رہنما ‘‘ کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔

اس مسرت رپورٹ میں ہمارے مطلب کی خبر یہ ہے کہ پاکستان مسرت کے تازہ عالمی اعشاریے میں پچھترویں نمبر پر ہے اور اس نے خوش رہنے کی دوڑ میں اپنے تمام ہمسایوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یعنی میدانِ مسرت میں چین پاکستان سے گیارہ درجے ، ایران اکتیس ، بنگلہ دیش چالیس ، سری لنکا اکتالیس ، بھارت اٹھاون اور افغانستان ستر درجے پیچھے ہے۔مرتبین نے مسرت ناپنے کے جو چھ پیمانے استعمال کیے ہیں ان میں فی کس آمدنی ، اوسط عمر ، سماجی ڈھارس ( سوشل سپورٹ ) آزادی ، دوسرے پر اعتماد ( ٹرسٹ ) ، دریا دلی اور کرپشن کی شرح شامل ہے۔

اگر ہم بین الاقوامی اداروں کی یہ بات مان سکتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن انڈیکس میں پاکستان بھارت سے چھتیس پوائنٹ زیادہ کرپٹ ہے ، اوسط عمر کے اشاریے میں پاکستان بھارت سے پانچ درجے نیچے ہے ، شرح خواندگی میں چین ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، ایران اور بھارت پاکستان سے کہیں بہتر ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان ان تمام معیارات کی دوڑ میں پیچھے رہنے کے باوجود ان سب سے زیادہ پر مسرت ملک ہے۔

مسرت انڈیکس میں تباہ حال افغانستان کا پاکستان سے ستر قدم پیچھے ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔مگر دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو ایسا کیا روگ کھائے جا رہا ہے کہ وہ بھی عالمی مسرت انڈیکس میں پاکستان سے گیارہ پوائنٹ پیچھے ہے۔ممکن ہے اس کا سبب خوامخواہ منہ کھولنے پر پابندی ہو۔ ایران کا اس اشاریے میں پاکستان سے اکتیس قدم پیچھے رہنے کا بھی شاید یہی سبب ہو۔

سری لنکا جنوبی ایشیا میں سب سے بہتر شرحِ خواندگی کے باوجود بھی اگر مسرت انڈیکس میں پاکستان سے اکتالیس پوائنٹ پیچھے ہے تو ہو سکتا ہے اس کے پیچھے بھی تامل سنہالہ طویل خانہ جنگی اور اکثریت میں ہونے کے باوجود سنہالیوں کا دیگر ہم وطن اقلیتی گروہوں کے بارے میں بدظن رہنا ہو ، بنگلہ دیشی اگر پونے دو روپے کا ایک ٹکہ ملنے کے باوجود بھی پاکستان کے مقابلے میں چالیس گنا کم خوش ہوں تو اس کا سبب ان کا جغرافیہ ، حسینہ واجد کا آمرانہ مزاج یا آس پاس والوں سے حسد بھی ہو سکتا ہے۔

مگر بھارت ترقی کے تمام اشاریوں میں پاکستان سے آگے ہونے ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے ، چوتھی بڑی دفاعی طاقت کا دعویدار ہونے ، خود کو جنوبی ایشیا کا چوہدری سمجھنے کے باوجود مسرت کے میدان میں پاکستان سے اٹھاون درجے پیچھے کیوں ہے ؟ مجھے واقعی یہ بات سمجھنے میں مسرت آمیز مشکل پیش آ رہی ہے۔

شاید بھارت میں جتنی بھی معاشی ترقی ہوئی اس کے ثمرات اوپر ہی سمٹ کر رہ گئے ہوں اس لیے آبادی کا ایک بڑا حصہ ناخوش ہو۔مگر یہی بات پاکستان کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔شاید بھارتیوں کو یہ وہم ہو کہ انھیں چین اور پاکستان کی جانب سے گھیرا جا رہا ہے۔مگر پاکستان بھی یہی سمجھتا ہے کہ بھارت اسے افغانستان اور ایران کی جانب سے بھی گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔شاید بھارتیوں کے پاکستانیوں سے زیادہ ناخوش رہنے کا سبب یہ ہو کہ وہ اپنے جمہوری ڈھانچے سے مایوس ہوں جس نے انھیں ووٹ کا حق تو دے دیا مگر اقتدار میں برابری کی بنیاد پر حقیقی حصے داری اب بھی خواب ہے۔لیکن عام پاکستانی بھی کم و بیش اپنی اندرونی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ہی خیالات سے دوچار رہتا ہے۔

شاید بھارتیوں کو یہ دکھ ہو کہ اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود دنیا انھیں حجمی اعتبار سے عجمی سمجھتی ہے اور اتنا سنجیدہ نہیں لیتی جتنا ان کا حق بنتا ہے۔مگر پاکستان میں بھی یہ عمومی خیال ہے کہ واحد مسلمان ایٹمی طاقت اور اسلام کا قلعہ ہونے کے باوجود خود عالمِ اسلام اسے اتنا ہلکا کیوں لیتا ہے۔

پاکستان پچھلے کئی برس سے دہشت گردی سے بھی جوج رہا ہے ، اندرونِ ملک علیحدگی پسند اور شدت پسند مذہبی تحریکوں کا بھی سامنا ہے ، جمہوری عمل بھی بے یقینی کا شکار ہے ، عدالتی پھرتیوں کے باوجود عام پاکستانی کو عدالتوں سے کم اور پنچائیتوں اور جرگوں سے انصاف کی توقع پہلے سے زیادہ ہے۔اسکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح بھی بد ترین سطح پر ہے۔صحت کا نظام بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے ، سر چھپانے کے لیے چھت کا خواب بھی پہنچ سے اور باہر ہو چکا ہے ، معیشت بھی قرض کی پہلے سے زیادہ عادی ہو چکی ہے جب کہ ٹیکس دینے والوں میں بھی کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔میڈیا بھی عام پاکستانیوں کے مورال کے لیے منفعیت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔پھر بھی کیا سبب ہے کہ پاکستانی اپنے تمام ہمسایوں سے زیادہ خوش ہیں۔

ایک سبب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ’’ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں‘‘۔دوسرا سبب شاید یہ یقین ہے کہ ہم جتنی بھی بے اعتدالی کر لیں آخر میں اللہ تعالی درگزر فرما کے سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔تیسرا سبب شاید یہ ہو کہ جب سب کچھ ایسے ہی چلتے رہنا ہے تو پھر دکھ میں رہنے سے کیا حاصل۔ چوتھا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ آسمان بھلے سب چھین لے مگر مجھ سے زمین کا بستراور پتھر کا تکیہ تو نہیں چھین سکتا۔پانچواں سبب ہر حال میں صبر اور شکر۔

چھٹا سبب شاید سخت جانی ہے۔ایک عام پاکستانی دب ضرور جاتا ہے مگر ٹوٹتا نہیں حالانکہ پچھلے ستر برس میں اس پر کیا کیا تجربے نہیں ہوئے اور کس کس ادارے نے نہیں کیے۔آپ اس عام آدمی کے سب راستے بند کر دیں تب بھی وہ کوئی نہ کوئی جگاڑ کر کے جینے کی راہ نکال ہی لیتا ہے۔

ساتواں ممکنہ سبب دریا دلی۔جو جتنا غریب اتنا ہی سخی۔ریاست بھلے قرضے خیرات پر چل رہی ہو مگر ایک عام پاکستانی کشادہ دل ہے۔ثبوت یہ ہے کہ صدقہ ، عطیہ ، خیرات کے عالمی انڈیکس میں پاکستانی پانچویں نمبر پر ہیں۔
بھارت خوشی کے انڈیکس میں ہم سے اٹھاون درجے پیچھے ہے۔اگر کوئی اور وجہ نہ بھی ہو خوش رہنے کی تو کیا یہ آٹھویں وجہ کافی نہیں۔جس دن ہم نے اس آٹھویں محور سے ہٹ کر خوش رہنے کے لیے نیا محور تلاش کر لیا تب ہم مادی ترقی بھی کر جائیں اور اس ترقی کو مساویانہ بانٹنا بھی سیکھ لیں گے۔مگر جلدی کیا ہے۔ستر برس قوموں کی زندگی میں کچھ بھی نہیں۔

یونہی واقعہ یاد آ گیا کہ ایک صاحب جھیل میں کانٹا ڈالے کتاب پڑھ رہے تھے۔ایک ناصح جو ان صاحب کو بہت دیر سے تاک رہا تھا قریب آیا اور کہا حضرت یوں وقت ضایع کرنے سے تو کہیں بہتر ہے کہ آپ کوئی چھوٹا موٹا جال خرید لیں اور بہت ساری مچھلیاں کم وقت میں پکڑ لیں۔اچھا پھر کیا ہوگا ؟ پھر یہ ہو گا کہ کچھ مچھلیاں اپنے لیے رکھ لیں اور باقی بیچ دیں۔

پھر کیا ہوگا ؟ پھر یہ ہو گا کہ آپ کے پاس پیسے آنے شروع ہو جائیں گے۔کچھ پیسے اپنی ضرورت کے لیے رکھ لیں اور باقی سے مزید جال خرید لیں۔زیادہ مچھلیاں آئیں گی تو زیادہ آمدنی ہوگی اور پھر آپ اس آمدنی سے ایک کشتی خرید لیں اور اس پر کچھ ماہی گیر رکھ لیں۔ایک آدھ برس میں آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ ایک فش ٹرالر خرید سکیں۔ کام بڑھے گا تو فشریز کمپنی قائم کرنی ہوگی ، کمپنی چل نکلی تو ہو سکتا ہے کہ اتنے آرڈر آئیں کہ آپ کو مزید ٹرالر خریدنے پڑ جائیں۔یوں ایک دن آپ کروڑ پتی ہو جائیں گے۔

اس کے بعد کیا ہو گا ؟ پھر یہ کیجیے کہ آپ اپنا کاروبار اولاد کے سپرد کر دیں اور عمر کے آخری حصے میں آرام سے کسی جھیل کے کنارے اسی طرح کانٹا ڈالے بیٹھے بے نیاز بن داس کتاب پڑھیں۔یہ کہہ کر ناصح چپ ہو گیا۔ان صاحب نے کہا ان تمام جھمیلوں میں پڑے بغیر بھی تو میں یہی کر رہا ہوں۔یہ سن کر میاں ناصح خاموشی سے نکل لیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے