وزیر اعظم کی امریکی نائب صدر سے ملاقات، افغان مذاکراتی عمل پر تبادلہ خیال

واشنگٹن: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے غیر متوقع طور پر امریکی نائب صدر مائیکل پینس سے ملاقات کی اور افغانسان میں مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔

اس حوالے سے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ ملاقات پاکستان کی درخواست پر امریکی نائب صدر کے گھر پر ہوئی اور یہ 30 منٹ تک جاری رہی اور اس ملاقات میں مائیکل پینس کے خصوصی مشیر برائے جنوبی ایشائی امور مائیکل کٹرون نے بطور’نوٹ ٹیکر‘ شرکت کی، تاہم ان کے علاوہ کوئی بھی امریکی یا پاکستانی عہدیدار دونوں رہناؤں کی ملاقات کے دوران موجود نہیں تھا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکی نائب صدر مائیکل پینس کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان پر ’ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت‘ کی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مائیکل پینس کو افغانستان میں امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کے مخلصانہ عزم کی یقین دہانی کرائی، ساتھ ہی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں پر بھی زور دیا۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے امریکی رہنما کو یقین دہانی کرائی کے پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے کیونکہ اس امن سے براہ راست پاکستان کو فائدہ ہوگا۔

دوسری جانب سفارتی مبصرین کی جانب سے پاکستان اور امریکا کے رہنماؤں کی ملاقات کو گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والے امن مذاکرات کے تسلسل میں دیکھا جارہا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست 2017 میں امریکا کی جانب سے افغانستان اور جنوی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاک امریکا تعلقات میں تناؤ ہوا تھا، تاہم 20 ستمبر کے اجلاس میں دونوں ممالک نے معاملات کو حل کرکے تعلقات جاری رکھنے کا اظہار کیا تھا۔

اس بارے میں واشنگٹن میں موجود سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات جاری رکھنے کا اظہار کیا گیا جبکہ ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے درخواست کی گئی کہ امریکی نائب صدر سے ایک اور ملاقات ضروری ہے کیونکہ گزشتہ ملاقات میں ’ معاملات کو آگے بڑھانے‘ پر بات ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ ایک اور ذرائع کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ہونے والی مثبت پیش رفت نے پاکستان کی ایک اور ملاقات کی کوشش کو اجاگر کیا اور اس حوالے سے دونوں اطراف کے سول اور عسکری حکام کے مختلف بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے کچھ مثبت اقدامات اٹھائے تھے جبکہ امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ واشنگٹن کی خواہشات کے تحت پاکستان افغان مصالحتی عمل میں طالبان کو حصہ لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا۔

پاکستان کو ملاقات کی ضرورت پیش کیوں آئی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر پاکستان کے غیر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے بیانات میں تبدیلی کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان جتنا کرسکتا تھا اس نے کیا تھا اور اب دوسروں کے لیے مواقع کھلے تھے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر تعلق جاری ہیں اور کسی اور چیز پر توجہ رکھنا مشکل ہے لیکن افغانستان پر نہیں اور پاکستان اور امریکا اس معاملے سمیت دو طرفہ تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کررہے ہیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ اس پوزشین میں نہیں کہ وہ یہ کہ سکیں کہ اس ملاقات کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے لیکن وہ یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ملاقات مستقبل کے منصوبوں پر بحث کے مقابلے میں پیش رفت کے جائزے اور نیک نیتی کے اظہار سے زیادہ تھی۔

بعد ازاں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کانگریس رکن ٹیڈ یوہو اور بریڈ شیرمین سے بھی ملاقات کی۔

اس ملاقات کے حوالے سے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مائیکل پینس کی طرح امریکی قانون سازوں نے بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال پر توجہ مرکوز رکھی لیکن ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے دونوں قانون سازوں نے پاکستان میں مسیحی افراد کے خلاف توہین مذہب کے کیس پر تحفظات کا اظہار کیا۔

اس ملاقات کے حوالے سے پاکستانی اور کانگریس کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات امریکا کے تحفظات کا باعث نہیں بنیں گے اور اسلام آباد امریکا اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے