اشفاق احمد کے بابے، سطح مرتفع پوٹھوہار اور خوش و خرم لوگ

اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہر برس مختلف ممالک میں لوگوں کی خوشیوں کی درجہ بندی کرتا ہے، اسے ورلڈہیپی نس رپورٹ کہتے ہیں۔ 2012ء میں جب یہ رپورٹ آئی تو پاکستان کے لوگ غالباً بہت ناخوش تھے۔ یا تو لوڈ شیڈنگ زیادہ ہو رہی تھی یا وہ حسین حقانی کی ملک دشمنی پر نالاں تھے۔ اس رپورٹ پر درویش بے نشاں نے ایک کالم لکھا تھا، ’ہم اداس کیوں ہیں؟‘ اداسی کے اسباب تو بدستور موجود ہیں لیکن الحمدللہ اس برس کی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی ایک خوشگوار حیرت لائی ہے۔ کل 175 ممالک میں پاکستان کا نمبر 56ہے۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان کے لوگ سب سے خوش پائے گئے ہیں اور اس سے بھی زیادہ مسرت کا مقام یہ ہے کہ ہمارا ازلی، ابدی، موعودہ اور مزعومہ دشمن بھارت ہم سے 33درجے پیچھے ہے۔ اہل حق ایسے موقع پر ایک خارا شگاف نعرہ بلند کیا کرتے ہیں لیکن استاد محترم نے درویش بے نشاں کو ’ناشاد بے جا پوری‘ کا خطاب دے رکھا ہے۔ یہ رپورٹ پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا ہوں۔ پاکستان کی سڑکوں پر شاید ہی کوئی بچہ بوڑھا جوان ہنستا نظر آئے، جسے دیکھو اندیشوں کی گٹھڑی سر پہ اٹھائے، خواب کے مدینے سے سوئے کوفہ جاتا نظر آتا ہے۔ تو یہ معجزہ کیسے ہوا؟ جبر کی رات میں کھلے دن میرے انبساط کے…

پھر خیال آیا کہ کچھ لوگ واقعی بے حد خوش ہیں۔ پچھلے پندرہ برس میں ستر ہزار گھرانے براہ راست دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان سونے گھروں میں خوشی بال کھولے ناچ رہی ہو گی۔ بلوچستان کی کچھ مائیں ہیں جن کے بچے غالبا سیر و تفریح کی غرض سے اتا پتہ بتائے بغیر کہیں چلے گئے ہیں۔ ان ماؤں کی خوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہو گا۔ خیبرپختون خوا کے دس ہزار جوان بندوقیں اٹھائے حضرت صوفی محمد کے ساتھ جہاد کرنے افغانستان چلے گئے۔ شاید ہی کوئی خوش نصیب واپس لوٹا ہو۔

صوفی صاحب البتہ خدا کی زمین پر TNFJ1 کی نمبر پلیٹ لگائے گھوم رہے ہیں۔ خدا صوفی صاحب کا سایہ سلامت رکھے۔ خوش کی کرنیں ان کی ذات بابرکات سے پھوٹتی ہیں۔ پاکستان کی عورتیں تو اس قدر خوش ہیں کہ ان کی معمولی چال رقص بسمل کہلاتی ہے۔

کراچی کا ایک پولیس افسر راؤ انوار ان دنوں تسخیر کائنات کی غرض سے خلائی سفر پہ روانہ ہو چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چار پانچ سو گھرانوں میں اس نے بھی خوشیاں بانٹیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ کیسی پرمسرت گزر اوقات ہے کہ چور کا دھڑکا نہیں۔ راہزن کو دعائیں دیتے ہیں۔ اکیس کروڑ کی آبادی میں کل ملا کے ستر لاکھ غیر مسلم رہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مساوات، احترام اور تحفظ جیسا ان مذہبی اقلیتوں کو اس ملک میں میسر ہے، اس کا دنیا بھر میں خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکول جانے کی عمر کے اڑھائی کروڑ بچوں کے پاس اسکول نہیں ہیں۔ دس کروڑ لوگ سرے سے ان پڑھ ہیں اور جو علم کی دولت سے مالامال ہیں ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، رفیق اختر، واصف علی واصف، نسیم حجازی اور بابا یحییٰ صاحبان کے ملفوظات سے علم کے موتی چنتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، اس زمین پر برگزیدہ ہستیوں کا سایہ ہے۔ یہاں دھوپ بھی چھاؤں ہے اور بیابانوں میں خوش فہمیوں کے نخلستان آباد ہیں۔

ایک خاص وجہ ہماری خوشیوں کی یہ ہے کہ جمہوریت کی کسی شاخ پر پھل نہیں لگتا مگر یہ کہ بفضل تعالیٰ گلشن میں جمہوریت کی دھوم ہے۔ آئین موم کی ناک سہی مگر آئین بالادست ہے۔ پارلیمنٹ کی عمارت عالیشان ہے، پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کو فیصلے کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ چوک میں کھڑے ہو کے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی آزادی ہے۔ اشراف، اجلاف، دھنیے، جولاہے، پنواڑی کاغذ کے ٹکڑوں پہ اس یقین کے ساتھ مہر لگاتے ہیں کہ ووٹ کسی کو ملے، حکومت بننے یا قائم رہنے کا ووٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اعظم موجود ہے، کابینہ کا لاؤ لشکر گنتی سے باہر ہے مگر پھر بھی اہم اہلکار بتارہے ہیںکہ اس ملک کو کیسے چلانا ہے۔ کون سی حکومت سست اور بے عمل ہے، کون سی حکومت بدعنوان ہے، کون سا منتخب نمائندہ نکما ہے، کون سا منصب دار نااہل ہے، کون سے قوانین بدلنے کی ضرورت ہے، کس ملک سے دوستی کرنا ہے، کس ملک سے حساب برابر کرنا ہے۔ پاکستان کے لوگ کیوں نہ خوشی کے شادیانے بجائیں کہ ان پر ملکی مسائل کا کوئی بوجھ ہے اور نہ فیصلہ کرنے کی کوئی ذمہ داری۔ اللہ تعالی کے چنیدہ افراد نے رضاکارانہ طور پہ یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔

پاکستان کے لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کہ تجارت کا خسارہ کیسے پورا ہو گا۔ وفاق کی چار اکائیوں میں اعتماد کا پل کیسے باندھنا ہے۔ ہر پانچ سات برس کے بعد ہمارے وزیر اعظم قتل کیوں ہو جاتے ہیں۔ ان کے قاتل گرفتار کیوں نہیں ہوتے؟ یہ کون صاحبان سلوک ہیں کہ جادو کی چھڑی کے اشارے پہ نمودار ہوتے ہیں اور پورے ملک کا میڈیا ان نووارد مسیحاؤں سے امیدیں باندھ لیتا ہے۔ کبھی افتخار چوہدری پہ پھول پتیاں نچھاور کرتا ہے، کبھی راحیل شریف کا شکریہ ادا کرتا ہے، کبھی بانی متحدہ کے پلنگ پہ بیٹھی چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہے اور کبھی طاہرالقادری کے استعمال شدہ ٹشو پیپر آنکھوں سے لگاتا ہے۔ ایک دن بتایا جاتا ہے کہ جہاد بہت بڑی نیکی ہے پھر پرچہ لگتا ہے کہ ہم تو میڈ ان امریکہ جہاد کرتے رہے۔ ٹیکس کی رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟

آمدن اور خرچ کے گوشواروں میں خالی جگہیں ایسے ہیں جیسے کائنات میں بلیک ہولز۔ کہتے ہیں ہمارے ادارے بہت مضبوط ہیں۔ یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ ان اداروں کی مضبوطی، اہلیت اور مستعدی کس امتحان سے گزر کر مستند قرار پائی۔ ایک اور اصطلاح ہے، قومی مفاد… واللہ کسی کو خبر نہیں کہ قومی مفاد کس بلا کا نام ہے اور اسے کون طے کرتا ہے؟ ماضی میں قومی مفاد طے کرنے والوں کی جواب دہی کا کوئی بندوبست ہم نے نہیں کیا؟ اشفاق احمد کا بابا رحمتے تو اعصابی کمزوری، علمی بے بضاعتی، فکری افلاس اور خوش فہمی کے اجزا سے ترتیب پاتا ہے۔ بابا رحمتے تو آمریت کے ناسور کی درد کش دوا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جب پاکستان کی لڑائی لڑ رہے تھے تو وہ کن بابوں کے دربار میں حاضری دیتے تھے؟ تاریخ تو بتاتی ہے بہادر یار جنگ نے 1943 میں مذہبی ریاست کا اعلان کیا تو قائد نے برسرمجلس اسے قبل از وقت قرار دیا۔ راجہ صاحب محمود آباد نے خود لکھا کہ ـمذہبی ریاست کا نام لینے پر قائد مجھ سے برسوں خفا رہے‘۔ پیر صاحب مانکی شریف کے نام خط کا مسودہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم ضعیف الاعتقاد نہیں تھے کہ نجومیوں اور کاہنوں کی دریوزہ گری کرتے۔ دنیا کے درجنوں ممالک میں لوگ ہم سے زیادہ خوش و خرم ہیں، ایک سو چالیس ملکوں کے لوگ معاشی طور پہ ہم سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے بابے درآمد کرنے کی کوئی ترکیب لڑانی چاہیے۔ دنیا کی نامور علمی درسگاہوں میں ہمارا کوئی مقام نہیں، کسی بیماری کا علاج ہم نے دریافت نہیں کیا، معمولی پرزے بنانا ہم نہیں جانتے، سیاسی انجینئرنگ میں البتہ ہم نے کمال پایا ہے۔

سیاسی جماعتیں بنانے اور ان کے دھڑے تراشنے میں ہمارا جواب نہیں۔ ہماری صحافت آزاد ہے اور اسے تعمیل ارشاد کی پوری آزادی ہے۔ ہماری درسگاہیں شہر سے باہر ہیں اور شہر کے وسط میں امن و امان قائم رکھنے والے ادارے مقیم ہیں۔ ٹالسٹائی مزے کا آدمی تھا۔ اینا کرینینا لکھنے بیٹھا تو پہلا جملہ لکھا، "خوش و خرم گھرانے سب ایک جیسے ہوتے ہیں، ہر دکھی گھرانے کی مصیبت الگ الگ ہوتی ہے”۔ اقوام متحدہ کے بابو لوگ کیا جانیں کہ سطع مرتفع پوٹھوہار کے بنجر ٹیلوں میں براؤن صاحب اور عجمی ملا کے کوڑے اپنی پیٹھ پہ سہنے والے اکیس کروڑ پابجولاں لوگوں کی خوشی اور ناخوشی کی حقیقی تصویر کیا ہے؟ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے… چراغ راہگزر کو کیا خبر ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے