’انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنا ہوگا‘

کراچی: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری روکنے کے لیے ڈاکٹروں کی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری کی تشویشناک صورتحال ہے اور ہمیں اس عمل کو روکنا ہوگا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سندھ انسٹیٹیوٹ آف یرولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ( ایس آئی یو ٹی) کے ڈاکٹر ادیب رضوی اور وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے۔

عدالت میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر ادیب رضوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آپ کو اس لیے زحمت دی ہے کہ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے، ہمیں اس عمل کو روکنا ہوگا اور اس عمل میں ڈاکٹر حضرات ہماری معاونت کریں۔

چیف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی سے استفسار کیا گیا کہ ہمیں بتائیں کہ غیر قانونی پیوندکاری کا کس طرح سے خاتمہ کرسکتے ہیں، جس پر ڈاکٹر ادیب رضوی نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت اعضاء فروخت ہونے کی سب سے بڑی سستی مارکیٹ ہے جبکہ 15 برس قبل اعضاء کی فروخت روکنے سے متعلق قانون بنا تھا۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سے قبل بھارت میں پیوند کاری ہوتی تھی اور پڑوسی ملک سب سے بڑی مارکیٹ تھا لیکن انہوں نے اعضاء کی فروخت کے خلاف قانون پاس کیا، جس کے بعد وہاں اعضاء کی فروخت بند ہوگئی لیکن بدقسمی سے اب پاکستان اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے عدالت کو بتایا کہ موثر قانون سازی نہ ہونے کے باعث گردوں کی پیوند کاری جاری ہے اور بدقسمتی سے غیر قانونی اعضا کی پوند کاری میں پاکستان کا شمار اگلے نمبروں پر ہوتا ہے، جسے روکنے کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری روکنے کے لیے موثر قانون سازی بھی ضروری ہے لیکن بعد از مرگ انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے بتایا کہ دنیا بھر سمیت اسلامی ممالک میں بعد از مرگ انسانی اعضاء عطیات کرنے کے قوانین موجود ہیں، تاہم ہمیں ڈونرز اورعوام میں شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر ادیب رضوی سے اسفتسار کیا کہ اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری روکنے کے لیے فوری طور پر کیا کیا جاسکتا ہے، یہ انتہائی اہم معاملہ ہے ہم کل بھی اسے چلائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انسانی اعضاء کو عطیات کرنے کے لیے موثر قانون سازی کی ہدایت دیں گے، آپ ہمیں سفارشات دیں ہم کارروائی کا حکم دیں گے، لاء جسٹس کمیشن موجود ہے، اس معاملے پر اسے بھی فعال کریں گے۔

جس پر ڈاکٹر ادیب رضوی نے کہا کہ انسانی اعضاء عطیات کرنے اور شعور بیدار کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ کراچی میں ہر سال ایک ہزار لوگ حادثات اور دیگر واقعات میں ہلاک ہوتے ہیں لہٰذا ان کے اعضاء کو عطیہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر عطیات کا عمل نہ کیا گیا تو غیر قانونی کمرشل کام جاری رہے گا۔

ڈاکٹر ادیب رضوی کے جواب پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید ریمارکس دیے کہ ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرسکتا ہے، میڈیا سے کہیں گے کہ اشتہارات کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرے۔

میاں ثاقب نثار نے مزید ریمارکس دیے کہ پنجاب میں پیوندکاری پر کام ہوا اور کئی سینٹرز بنائے گئے، تاہم لوگ غربت کے باعث انسانی اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں مگر اس کاروبار کو چلانے والے کون ہیں، جو ڈاکٹرز یہ کاروبار کرتے ہیں انہیں کیوں نہیں پکڑا جاتا، حکومتیں کیوں مانیٹر نہیں کرتیں؟ اگر قوانین میں ترمیم کرنی ہے تو کم از کم بتایا تو جائے۔

جس پر وکیل منیر اے ملک نے بتایا کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق قانون موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومتیں عمل نہیں کرا رہیں اور ڈاکٹرز میڈیکل اسٹاف، نرسیں یہ کاروبار کرتی ہیں۔

منیر اے ملک کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا کیوں استعمال نہیں کرتے، سوشل میڈیا پر کچھ اچھے کچھ خرافات پیغامات ہوتے ہیں، اس مقصد کے لیے کیوں استعمال نہیں کرتے، ہمارے اختیار میں جو کچھ ہوا ہم تعاون کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکلاء، ریٹائرڈ ججز اور سول سوسائٹی بھی آگے آئے اور اس کام میں آپ ایک ٹیم بنائیں، عدالت پوری معاونت کرے گی۔

اس موقع پر عدالت نے اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری روکنے کے لیے ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر رحیم سمیت چار رکنی کمیٹی تشکیل بھی دی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے