اساتذہ گرامی۔۔پلیزمعصوموں کا اضافی بوجھ کم کریں۔۔!

کراچی میں عباسی شہیدہسپتال کی انتظامیہ نےسکولوں کی انتظامیہ کوخط لکھ ہے کہ بھاری بیگزاٹھا نے سے چھوٹے بچےہڈیوں اورکمر کی تکلیف سمیت مختلف بیماریوں کاشکار ہورہے ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے بچے ہسپتال میں گردن،کندہوں،کمر میں درد کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں جس کی اہم ترین وجہ بھاری بھر کم بستے ہیں۔ماہرین کے مطابق ایسے بیگز کو کھینچنے سےبچوں کی کولہے اور ریڑھ کی ہڈی غیر قدرتی انداز میں مڑ سکتی ہے،لہذا اس اہم معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ کتنا افسوسناک امر ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کا بچپن تلخ کرنے کے لیے ان پر بھاری سکول بیگز کا عذاب نازل کیا ہوا ہے۔آج پاکستان سمیت دنیا کےترقی پذیر اور غریب بیشتر ملکوں میں سکول جانے والے بچے انتہائی وزنی بستے کمر پر اٹھائے درسگاہوں کی طرف جاتےنظر آتے ہیں۔مجھے ان طالب علموں کو دیکھ کر اکثروبیشتر ریلوے کےقلی یاد آجاتے ہیں۔
بچوں کو زیادہ کتابیں پڑھانے کی مثال اس ڈاکٹر کی سی ہے جو مریض کو ایک خوراک میں دس پندرہ گولیاں اورکیپسول دے دیتا ہے کہ کوئی تو اثر کرے گی۔یہ مسئلہ بھی اس کمزورزہین ڈاکٹر کی طرح تعلیم کے نصاب کا فیصلہ کرنے والوں کی نااہلیت کا ثبوت ہے جنہیں معلوم نہیں کہ کس عمر کیلئے کیا پڑھاناضروری ہے۔تحقیق پر پتا چلا کہ ملک بھر خصوصاکراچی میں پہلی کلاس سے دسویں تک کے بچوں کےسکول بیگ اس قدر بھاری ہیں کہ ان کی کمر جواب دے رہی ہوتی ہے۔ ایک تو غذائیں بچوں کو خالص نہیں ملتیں، اوپر سے اتنا وزنی بیگ اٹھا کر وہ اسکول آتے جاتے ہیں اور آئے روز بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک خاص حد سے زائد بوجھ اٹھانے کے سبب بچوں کی ریڑھ کی ہڈی عمر بھر کیلئےمتاثر ہو سکتی ہے جو بعد ازاں شدید نوعیت کے طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ ماہرین طب اس مسئلے پربھی متفق ہیں کہ ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھانے والے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سکول کے بستوں کا وزن بچے کے وزن سے دس سے بارہ فی صد سے ہر گززیادہ نہیں ہونا چاہیے اوربچے کی جسمانی حرکات وسکنات کو مد نظر رکھ کر بنائے جانے والےسکول کے بستے ہی استعمال ہونے چاہیں اوراس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو اور بچے کی استطاعت سے بڑا نہ ہو، کیوں کہ یہ سارے عوامل بھی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔
مجھے یاد ہے دس پندرہ سال پہلے سکولوں میں تختی اور سلیٹ کے خاتمےاور ان کی جگہ رف اور نیٹ کاپیوں سے بستے بھاری ہوئے ہیں۔ہمارے زمانے میں سرکاری کے علاوہ پرائیویٹ سکولوں میں بھی تمام مضامین کی ایک ہی رف کاپی ہوتی تھی اب ہر مضمون کی علیحدہ رف کاپی بستے میں ہونا لازمی ہے۔اب تو نجی سکولوں میں یہ کتابیں اور کاپیاں سکول انتظامیہ خود فروخت کرتی ہے اور اس پر کمیشن کی مد میں والدین سے فیس کے علاوہ بھی رقم لی جاتی ہے۔ میں جن سماجی مسائل کی نشاندہی کرتا ہوں اس میں کوشاں ہوتا ہوں کہ مسئلے کے ساتھ اپنی سمجھ کے مطابق اس کے حل کیلئے بھی کچھ تجویز کروں۔ہم کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں ڈیجیٹل اسمارٹ اسکولز کے زریعےکلاسزکو کمپیوٹرز لائبریری سے منسلک کرکےاور’’ای بک‘‘سےبچوں کوناصرف یکساں تعلیمی سہولیات بلکہ وزن اٹھائے بغیرجدید ترین علم فراہم کر سکتے ہیں۔جبکہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں اساتذہ ہر روز بچوں سے سارا کورس منگوانے کی بجائے مضامین کے دن متعین کریں، سلیبس بنائیں، اور اس کے حساب سے ہفتے کے مختلف دنوں میں بچوں سے محدودکتابیں اور کاپیاں منگوائیں تاکہ وہ ہلکے ہوکر آزاد زہین سے علم حاصل کرسکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے