تاریخ،نظریہ اور ریاست

صفتین خان

صفتین خان

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
تاریخ ، ںظریہ اور ریاست آجکل اہل علم دوستوں عامر ھاشم خاکوانی اور وجاھت مسعود کے درمیان پاکستان کی ” نظریاتی ” جنگ جاری ھے ۔ جس نے رائیٹ اور لیفٹ ونگ کا موقف علمی پہلو سے جاننا ھو اس کو ان کالموں کا مطالعہ کرنا چاھئے ۔ یہ ایسا بدقسمت ملک ھے کہ پیدائش کے 68 سال بعد بھی اپنے تشخص کے حوالے سے اہل فکر میں مشکوک ھے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ھم سب لوگوں کا اپنے آپ کو مخصوص خانوں میں بانٹنا ھے جس کے باہر کسی حق کا تصور بھی محال ھے ۔ میرا خیال ھے قومی ریاست یا سیاسی حقائق بھی مذھب کا ایک حصہ ھی ھوتے ھیں ۔ مذھب تشخص میں ایک غیر معمولی حیثیت رکھتا ھے ۔ انسان ایک ھمہ جہت مخلوق ھے ۔ اس کی ساخت میں مذھب ، نسل ، جغرافیہ اور زبان سب شامل ھوتے ھیں ۔ اس کل کے ایک جز کو اس کی پہچان قرار دینا یا ضرورت سے زیادہ زور دینا نہ سمجھی کے سوا کچھ نہیں ۔
مسئلہ یہ ھے کہ نظریہ اور جدید ریاستی ڈھانچے و سیاسی حقائق کو ناگزیر طور پر ایک دوسرے کا مخالف تصور کر لیا گیا ھے جس سے یہ تصادم اور فکری کنفیوژن برپا ھے ۔ معاشرتی و سیاسی حالات کسی بھی نظریہ کی پیدائش اور قیام میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتے ھیں ۔ پھر نظریہ ضروری نہیں کہ ھمیشہ ایک ھی مقام پر کھڑا رھے ۔ اس میں تبدیلی ممکن ھے ۔ یہ کوئی الہامی شے نہیں ھوتی بلکہ تاریخ کے ایک خاص وقت میں چیزوں کو سمجھنے کا ایک انداز ھوتا ھے ۔ تقسیم برصغیر حالات کے جبر کے تحت ھوئی تھی اور اس میں بھی ھمارے رھنماوں کی بصیرت شامل تھی ۔ سوال یہ ھے کہ ایسا نظریہ جو مخصوص حالات کے تحت وجود میں آیا کیا اس کو دوام حاصل ھے ۔ ؟ اس میں اس بات کو بھی اہمیت حاصل ھے کہ دونوں ملکوں و قوموں کے جغرافیائی و سیاسی حالات کیا 67 سال پہلے کے جیسے ھیں ۔ اگر ایسا ھی ھے تو یہ نظریہ اپنی صداقت و ضرورت وقتا فوقتا جتلاتا رھے گا ۔ دو قومی نظریہ کو باطل یا غیر متعلق ثابت کرنے کے لئے ضروری ھے کہ برصغیر کے معروضی حالات تبدیل ھوں اور ایسا ھندوستان کے رویے میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ۔ یک طرفہ طور پر آپ جتنا مرضی امن کی آشا کے راگ الاپتے رھیں مگر کوئی مودی آکر ایک پل میں آپ کو دوبارہ تقسیم ھند کے وقت میں جا کر سوچنے پر مجبور کر دے گا ۔ پھر قومی تشخص کی تھیوری بھی بڑی دلچسپ ھے ۔
ھم بحیثیت قوم اپنے تشخص کے معاملہ میں کچھ زیادہ ھی حساس ھیں ۔ ھماری پہچان اتنی نازک ھے کہ چند تاریخی واقعات و کرداروں کو بیان نہ کرنے سے حالت نزع میں چلی جاتی ھے ۔ تاریخ آپ یقینا پڑھائیں مگر قرآن کے مخالف نظریات کو مکالمے کی دعوت دیتے اس اصول پر کہ اتفاقات سے اختلافات تک کا سفر طے کیا جائے ۔ اگر ایسا نہ کریں تو قوم میں کبھی اپنے محسنین کے بارے میں قدردانی کے جذبات پیدا نہیں ھوتے ۔ ہر قوم اپنے محسنوں کا تذکرہ زیادہ کرتی ھے اور ایسا کرنا بھی چاھئے مگر اس کی بنیاد سچ پر رکھی جائے ۔ تاریخ پڑھانے سے زیادہ یہ اہم ھے کہ کیسے پڑھائی جا رھی ھے ۔ مقصد کیا ھے ۔ تربیت کیا دی جا رھی ھے تاریخ دانی سے ۔ نفرت پر مبنی ھے یا توازن پر ۔ آجکل کے سوشل میڈیا کے دور میں یک طرفہ اور ادھورا سچ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ اب بچے تاریخ سے آگاہی کے لئے صرف درسی کتب کے محتاج نہیں ۔ تاریخی لیڈروں کو دیومالائی کرداروں سے تشبیہ نہ دی جائے کہ اس سے شخصیت پرستی پیدا ھوتی ھے ۔ سو اعتراض ادھورا سچ بولنے پر ھے ۔ اس بات پر تو بحث ھو سکتی ھے کہ پورا سچ کب بولا جائے مگر اس کو چھپانا علمی خیانت ھے ۔
میرے خیال سے دونوں جانب کے حامی اپنی اپنی جگہ درست ھیں ۔ دونوں میں تطبیق یوں ممکن ھے کہ تعلیم کے مختلف مراحل میں سچ بولنے پر اکٹھ کر لیا جائے ۔ بچپن میں آئیڈیالزم کو فروغ دینا ضروری ھے اعتماد پیدا کرنے کے لئے جب کہ بعد میں منطقی تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرنا زیادہ ناگزیر ھے ۔ اس لئے بچپن میں متفق اور مثبت تاریخ شعور میں انڈیلیں ۔ بعد میں اختلافی امور شامل کریں ۔ مگر احتیاط رھے کہ مذھبی جبر منتقل نہ ھونے پائے اس دوران ۔ تشخص کے دوسرے عوامل کی ابتدائی آگاہی بھی دی جائے ۔ یہ بات کہ بعد میں بچے تلخ سچ کو برداشت نہیں کر سکیں گے اس طرح روکی جا سکتی ھے کہ ان کو بچپن سے ھی تاریخ پڑھنے کی تربیت بھی دی جائے ۔ سچ سمجھنے کی توفیق بھی عطا کی جائے ۔ استاد اس میں اہم ترین کردار کا حامل ھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے