خیال – جمہوریت

جمہوریت جمہور کا نام ہے، جمہور کی خواہش کے مطابق، جمور کے لئے ہونے والے فیصلے ہی جمہوریت ہیں، اکثریت اور اقلیت بھی جمہوریت سے جنم لیتے ہیں ، ان دونوں باتوں میں کوئی تعلق تو نہیں لیکن میں نے جب جمہور کو سوچا میرے تخیل میں کہیں نہ کہیں ڈگڈگی بجی، کہیں آواز گونجی ، بچہ جمہورا ۔۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ آمریت کا دور کیا تھا، مجھے اس میں کوئی برائی نظر نہیں آئی، کیونکہ تب مجھے اس قدر شعور نہیں تھا، کہ برا کیا ہے اور جمہوریت کیا؟

میں نے جمہوریت کو پیدا ہوتے ، پنپتے دیکھا، مجھے زیادہ یاد نہیں لیکن میں کھیلتے کھیلتے ٹی وی کے آگے سے گزرا تو دیکھا کہ ایک بی بی اور ایک صاحب بیٹھے تھے، اور اردگرد کافی لوگ اور بھی تھے، کوئی میثاق بنائی تھی ان لوگوں نے، مجھے نہیں یاد کون لوگ تھے وہ، ایک جلسہ سا تھا کوئی ، وہ کوئی صدر تھا شاید ، مکا لہرا رہا تھا، جلسے میں ، کچھ رقص بھی کیا تھا اس نے ، مجھے نہیں یاد کون تھا، لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ یہ جمہوریت ہے، میں نے جمہوریت دیکھی نہیں تھی اس لئے اس کی بات مان لی،

پھر ایک دھماکا ہواتھا، ایک گولی بھی چلی تھی، میں نے نہیں سنا کیا ہوا تھا تب، میرے گھر سے قریب تھا، میں نے مرنے والے کے مخالف کو بھی غمزدہ دیکھا تھا، لیکن فیصلہ تب انہیں لوگوں کے ہاتھ آگیا ، اور وہ کہتےتھے، جمہوریت یہ ہے، میں نے کہا اچھا جی، ہو گی ، یہی جمہوریت ہوگی، اک الیکشن ، دوسرے الیکشن ، پھر پتہ نہیں کیا کیا ہوا، میں سوچ رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں، وہ کہتےہیں کہ ایک آمر فیصلے کرتا تھا،

اب عوام فیصلہ کرتی ہے، اور مجھے میرے دوست نے بتایا تھا، پتہ نہیں صیح بتایا تھا کہ نہیں، ذاتی مفاد ہی عوامی مفاد ہے، میں نہیں مانتا اس کی بات، عوام ووٹ سے منتخب کرتی ہے، ووٹ ڈالتی ہے تو کوئی منتخب ہوتا ہوگا نا، لیکن پھر میں نے کسی سے پوچھا ، کس کو ووٹ دو گے، بولا، ووٹ سے کون سا تبدیلی آنی، جھرلو پھریں گے، اقتدار اپنا آقا خود چن لے گا، لیکن پھر میرا سوال خود سے یہی ہوگا کہ جو اپنا آقا چن رہا ہے، اصل آقا تو وہی ہوا، اور اگر وہ عوام نہیں تو پھر کون ہے، لیکن میں دیو مالائی کہانیاں ہی سنتا آیا ہوں، کوئی نادیدہ قوت کہتا ہے، کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ، اور سب جان چھڑا لیتے ہیں، جمہور کون ہے ، ڈگڈگی کس کے ہاتھ ہے، لیکن ووٹ تبدیلی ہے، وہ ہتھیار جو تباہی پھیلا سکتا ہے، لیکن لوگ سمجھتے ہی نہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ اس بار ووٹ ڈالوں ، سنا ہے کہ جس کو بھی ووٹ ڈالوں گا وہی جیتے گا،

لیکن پتہ نہیں ، یہ نادیدہ قوت کون ہے، اگر اس نے میرا ووٹ بھی تاڑ لیا تو، لیکن کوئی نہیں میرا ووٹ ہے، کتنا ہی دبا لے میں اپنا کام کروں گا، تو باقی نادیدہ بھی ندیدہ تھوڑی ہوگا، کبھی نا کبھی تو باز آیا گا، اور جمہور بندر کے کرتب کے بجائے سوچ کی ڈگڈگی پر چلیں گے نا کہ جمہورا بنے سسرال جانے کی اداکاری، اور ایسے راستے پر کہ سسرال آئے نا ہی کوئی دکھائی دے، کس طرف جارہے ہیں، اپنے ہر خوف کو نادیدہ کا نام دے رکھا ہے، اپنی پسند کے لیڈر میں کوئی بھی خامی نظر آئے تو کہہ دینا آسان ہے کہ کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے ووٹ کی طاقت کیا ہے ، ورنہ نادیدہ قوتیں اور پس پردہ ذاتی مفاد اور ذاتی عناد سامنے آنے کی جرات نہ کرسکیں۔

اس لئے ووٹ ہی اصل تبدیلی ، اصل طاقت ہے، ووٹ کی طاقت ہی ہے کہ پانچ سال بعد پھر یہ سیاستدان ابھی میٹھے ہونے لگے ہیں، اور عوام کی آؤ بھگت کرنے لگے ہیں، ورنہ ، وہ مکے لہرانے والا آمر کہاں سنتا ہے، اسے کس نے ووٹ دینا ہے، اسے کون پوچھے ، غریب تو دو وقت کی روٹی کھا لے بہت ہے، اسے کیا لگے طرز حکومت کیا ہے اور حکومت کس کی ہے۔ وہ تو بس روٹی کھائے یا بھوکا رہے، اور اگرجمہوریت ہو تو اسے پیٹ پر پتھر باندھنے کی آزادی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے