جنگل، بارش، جھیلیں، تتلی ، جگنو، کوئل اور ہم

بہار رت ہو ، پو پھُٹ رہی ہو، آپ جھیل کنارے کھڑے ہوں ، تاحد نظر پانی میں مرغابیوں کے غول کے غول اترے پڑے ہوں ، جھیل کے کنارے پر پھول اگ آئے ہوں ، پھولوں سے رنگ رنگ کی تتلیاں اٹکھیلیاں کر رہی ہوں ، ساتھ ہی ایک باغ ہو ، باغ میں کوئل بول رہی ہو ، دور دور تک کوئی نہ ہو ، مکمل سناٹا ہو جو صرف اس وقت ٹوٹے جب چند مرغابیاں شوخی میں ڈبکی لگائیں اور اڑ کر کنارے پر آ کر پروں کو پھڑپھڑانے لگیں یا جب کہیں سے چینچل چڑیوں کی ایک ٹولی شور مچاتی آپ کے پاس والے درخت پر ایک لمحے کو آن بیٹھے اور پھُر سے اڑ جائے ۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آکر آپ سے لپٹ جائے اور آپ بے اختیار کپکپا دیں، پھر پہاڑوں کے پیچھے سے سورج کی پہلی کرن آپ کے وجود پر یوں اترے کہ شانت کر دے ۔ اگلے ہی لمحے بادلوں کی چند ٹولیاں سورج کو چھپا لے جائیں ۔ پھر بادل سے ٹپ ٹپ بوندیں برسنا شروع ہو جائیں ۔ آپ ایک بوڑھے درخت سے ٹیک لگا کرآنکھیں بند کر لیں اور جھیل میں اترتی بارش کا شور آپ کو آسودہ کر دے ۔ یہ کسی افسانے کا منظر نہیں ، یہ فروری اور مارچ کے اسلام آباد میں راول جھیل کے کنارے طلوع ہوتی صبحوں کا وہ احوال ہے جو سورہ رحمن کی تفسیر بن کر اترتا ہے اور پوچھتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

راول جھیل ایک عرصہ ہوا عوام کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ انقرہ پارک سے ایک رومانوی راستہ جھیل کے مشرقی کے مشرقی کونے میں واقع پہاڑی تک جاتا تھا، جہاں ایک قدیم مندر تھا ۔ اس مندر کے پتھر پر ایک ایسی جگہ تھی جہاں بیٹھ کر پوری جھیل کا نظارہ کیا جا سکتا تھا ۔ یہ راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں اب داخلے پر پابندی ہے، ہٹس اور کھوکھے بند ہو چکے ہیں ، سیر گاہ اجڑ چکی ہے۔ اس انتظام سے ایک خیر کا پہلو مگر یہ نکلا کہ جھیل کا یہ حصہ اب اور حسین ہو گیا ہے۔ یہاں قدم رکھتے ہی یوں لگتا ہے آپ مشینی زندگی کو چھوڑ کر صدیوں پیچھے چلے گئے ہیں ۔ اب میں یہاں آتا ہوں اور دیر تک بیٹھا رہتا ہوں ۔ مچھیروں کی کشتیاں ، چپو کی آواز اور پھر سناٹا ۔ اتنا پراسرار سناٹا کہ من کا برہما شانت ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایک ادھیڑ عمر مچھیرا ایک بچے کے ساتھ کشتی کو کنارے پر باندھ کر جال کی گتھیاں سلجھاتے نظر آتا ہے ۔ اس کا نام چاچا بشیر ہے ۔ کبھی اس کے پاس مچھلی نہیں دیکھی۔ اسے دیکھ کر مجھے ہیمنگوے کا ’’ اولڈ مین اینڈ دا سی‘‘ یاد آتا ہے۔ ہیمنگوے کا اولڈ مین بھی یقیناً اسی چاچے بشیرجیسا ہو گا ۔

بدلتے موسم اپنے اندر ایک عجیب سی کشش رکھتے ہیں ، کبھی سوگواری تو کبھی سرشاری ۔ لیکن اسلام آباد میں جب ایک موسم رخصت ہوتا ہے اور دوسرا اترتا ہے تو یہ ایک طلسم ہوتا ہے۔ پھولوں ، تتلیوں اور جگنوؤں کی تو بات ہی کیا ہے ، مارگلہ کے جنگل کی تو پت جھڑ بھی قیامت خیز ہوتی ہے۔ خزاں رتوں میں آپ تنہا کسی سہہ پہر مارگلہ کے جنگل کا رخ کیجیے ، یہاں تک کہ کسی پگڈنڈی پر بکھرے خشک پتوں پر چلتے چلتے آپ کو شام ہو جائے ۔ اس ایک لمحے میں آپ کو معلوم ہو جائے گا جان کیٹس جیسا شاعر خزاں کا دیوانہ کیوں تھا۔

مارگلہ کے جاڑے کی تو بات ہی کیا ہے۔ پہاڑوں سے اتر آئیں تو سردیاں تو اب صرف مارگلہ میں پائی جاتی ہیں۔ کل سرگودھا سے لوٹا ہوں ، وہاں پنکھے چل رہے ہیں اور یہاں رضائی لے کر سویا ہوں کہ کمبل سے وحشت ہوتی ہے۔ جاڑے کا تو حسن ہی رضائی کے ساتھ ہے۔ دیہات کی بنی ہواور روئی بہت زیادہ استعمال کی گئی ہو۔ صبح دم سبزے کو کہر کی دبیز تہہ نے لپیٹ میں رکھا ہو، یہ منظر اب پنجاب کے کھیتوں میں کم کم ہی ملتا ہے۔ اسلام آباد کے جاڑے میں البتہ یہ منظر جابجا پھیلا نظر آتا ہے جہاں سردی اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اترتی ہے۔

اور برساتیں تو ہیں ہی صرف مارگلہ کی۔ کبھی تو یہ عالم تھا کہ ساون آتا تھا تو واپس جانا بھول جاتا تھا ۔ اتنی بارشیں ہوتی تھیں کہ سارے چاہ پورے ہو جاتے تھے اور بادلوں کے تھم جانے کی دعائیں کی جاتی تھیں ۔ چند سال پہلے کی بات ہے عمران خان کے گھر دعوت تھی ۔ میں اور سعید خورشید وہاں سے نکلے تو بارش نے آ لیا ۔ اتنی بارش ہوئی کہ خوف آنے لگا ۔ جب بارش تھمی تو سڑکوں پر پانی کا یہ حال تھا کہ کار کا چلنا ممکن نہیں تھا ۔ گاڑی سعید خورشید کے ہاں چھوڑی اوران کی جیپ پر گھر پہنچا ۔ درختوں کو کاٹ کاٹ کر اب یہ حال کر دیا گیا ہے کہ اسلام آباد کی بارشیں بھی روٹھتی جا رہی ہیں ۔ راول جھیل میں پانی تو ہے مگر کناروں سے کافی نیچے۔ کبھی یہ عالم ہوتا تھا کہ بار بارراول جھیل کے سپل وے کھول کر پانی نکالا جاتا تھا اور میں گھر جاتے ہوئے رک کر یہ منظر دیکھتا رہتا تھا ، اب جھیل بھرتی ہی نہیں ہے اور عرصہ ہوا جھیل سے پانی کے اخراج کا منظر نہیں دیکھا ۔ کبھی گھر کے پہلو میں بہنے والی ندی بارش سے بھر جایا کرتی تھی اور بہتے پانی کا شور گھر میں سنائی دیتا تھا ، اب اس منظر کو دیکھنے کو بھی آنکھیں ترس گئی ہیں ۔ ہم درختوں کو کاٹتے جا رہے ہیں اور بارشیں ہم سے روٹھتی جا رہی ہیں۔

راول جھیل کے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح اب دو سو فٹ تک جا چکی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آنے والے دنوں میں پانی کا بحران کتنا شدید ہو سکتا ہے۔ دنیا چیخ رہی ہے کہ پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا خطرہ ہے لیکن پاکستان میں اس مسئلے پر بات کرنے کی کسی کے پاس فرصت ہی نہیں۔پارلیمان ہو یا صحافت ، ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔یاد نہیں کبھی پانی کا مسئلہ پوری معنویت کے ساتھ پارلیمان یا میڈیا میں زیر بحث آیا ہو۔

ایک ہفتہ پہلے جھیل پر آیا تو ایک پتھر کو نشان بنا لیا کہ پانی یہاں تک آ چکا۔ سرگودھا سے لوٹا ہوں تو ابھی جھیل پر آیا ہوں ۔ پانی اس نشان سے دس بارہ فٹ نیچے جا چکا ہے۔ تو کیا وہ وقت آنے والاہے جب یہ جھیل خشک ہو جائے گی؟ کتنی ہی دیر اداسی کے عالم میں ، میں جھیل کو تکتا رہا ۔ یوں لگا جھیل خشک ہو چکی ہے اور اس کا سارا پانی میری پلکوں میں اتر آیا ہے۔ یہ جنگل، یہ جھیلیں ، یہ پرندے ، یہ بارشیں ہمارے ساتھی ہی نہیں ہمارا مستقبل بھی ہیں ۔ یہ مستقبل ہم سے روٹھ رہا ہے ۔ اسے منا لیجیے ۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے