شہباز نے ٹھیک کہا لیکن…….؟

شہباز شریف نے بات تو ٹھیک کی ہے کہ’’عدلیہ، فوج اور سیاستدان مل کر کا م کریں‘‘ لیکن پرابلم یہ ہے کہ سیاستدان کو لگام بلکہ سچ پوچھیں تو لگامیں کون دے گا؟اس شتربےمہار کو نکیل کون ڈالے گا کہ اس مخلوق کا تو سر پیر ہی کوئی نہیں۔ یہ ایک ایسی عجب مخلوق ہے جو کھیلن کو چاند ہی نہیں مریخ، سورج، زہرہ اور دیگر سیارے بھی مانگتی ہے۔ یہ کام چور بھی ہیں جو اپنی’’کلاسوں‘‘ یعنی اجلاسوں میں نہیں جاتے، یہ حرام خور بھی ہیں جو ترقیاتی فنڈز کا’’رام رام یعنی عوام عوام جپنا ’’پرایا مال اپنا‘‘ کردیتے ہیں۔ عجب قانون ساز ہیں جو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اکثریت جہلا کی ہے جو آج تک ذات برادری کا بیرئیر نہیں توڑ سکے اور میرٹ کے بدترین دشمن ہیں۔

2018میں بھی تھانیدار اور پٹواری ان کے’’اوزار‘‘ ہیں اور’’ہتھیار‘‘ بھی۔ میں ان کی شان میں بہت لمبا قصیدہ قلم بند کرسکتا ہوں لیکن ضرورت اس لئے نہیں کہ عوام ان کی اوقات مجھ سے بہتر طور پر جانتےہیں جبکہ دوسری طرف عدلیہ اور فوج کی سب سے بڑی طاقت ان کا ڈسپلن اور میرٹ ہےاور یہ دونوں سیاستدانوں کے قریب سے بھی گزرے جب جی چاہے کسی بلاول یا مریم کو سکائی لیب یا چھاتہ بردار کی طرح ’’اوپر‘‘ سے اتار دیتے ہیں اور شرمسار بھی نہیں ہوتے۔ عدلیہ، فوج اور سیاستدان کایکجا ہوناکچھ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تین گھوڑوں کی رتھ میں دو گھوڑوں کے ساتھ ایک بیمار گدھا باندھ یا جوت دے۔ اس لئے ایسا خواب دیکھنے سے پہلے سیاستدان کو چاہئے اپنے لئے کوئی ضابطہ اخلاق، اصول، قاعدے اور دیگر ضابطے بھی طے کریں۔

یہ تو پولیٹیکل پارٹیاں بھی یوں چلاتے ہیں جیسے پنساری کی دکان (پنساریوں سے معذرت کے ساتھ) سو بھائی! ’’پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرو‘‘……….پھر جم جم ’’خاکی‘‘ اور ’’عدالتی‘‘ کے ساتھ بریکٹ ہونے کے تھری ڈی خواب دیکھو ورنہ ایک تو تم ہو ہی’’دیہہ جماعتاں پاس ڈریکٹ حوالدار‘‘ اوپر سے رج کے کرپٹ اور نالائق بھی۔ لوگ کہتے ہیں’’ایم پی اے‘‘ مخفف ہے’’میں پاگل آں‘‘ کا اور ’’ایم این اے‘‘مخفف ہے ’’میں نالائق آں‘‘ کا، جس کا جی چاہے سروے کراکے دیکھ لے کہ سب سے ناپسندیدہ بلکہ قابل نفرت پیشہ کون سا ہے؟ عوام اپنے نمائندوں کو ہی’’نمبرون‘‘ قرار دیں گے۔ یہی دو ادارے تو ان کے شر سے محفوظ ہیں اور آج عوام کے لئے ’’تحفظ‘‘ کی علامت بن چکے، تیسرا’’نیب‘‘ اپنی نئی قیادت میں تیزی سے نئے مقام کی طرف گامزن ہے۔ باقی تو ہر ادارہ یہ منحوس کھاگئے، کسی کو’’احد چیمہ‘‘ ہوگیا، کسی کو’’ظفر حجازی‘‘ جیسا مرض چمٹ گیا۔ ’’اقتدار نہیں اقدار کی سیاست‘‘ کے نام نہاد چمپئنز کا پنجاب میں سب سے بڑا کارنامہ بیوروکریسی کی ہڑتال ہے۔

سنا ہے یہ تو ’’نیب‘‘ کا ریکارڈ بھی اغوا کرنے کے چکر میں تھے اور یہ بھی سنا ہے کہ احد چیمہ کوئل کی طرح کوک رہا ہے۔میں نے دو ڈھائی سال پہلے اک خواب دیکھا اور کالم لکھا جس کا عنوان تھا……..’’عوام، افواج اور عدلیہ‘‘ آج کل اس خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہوں۔ یہ ایک تکون ہی کافی ہے، باقی سب کچھ اضافی ہے کیونکہ ’’غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں‘‘ پھر بھی اگر سیاستدان ’’عوام کی بہبود‘‘ جیسے جہاد میں شامل ہونا چاہیں تو سو بسم اللہ لیکن ایسا کرنے سے پہلے’’ کبوتر با کبوتر باز باباز‘‘والی بات دھیان میں رکھتے ہوئے انہیں اپنے رویوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا لیکن نہیں کیونکہ یہ وہ ٹیڑھی دمیں ہیں جو کبھی سیدھی نہیں ہوسکتیں اور قصور بھی ان کا نہیں، ان کے ڈی این اے کا ہے۔ کہتے ہیںعادتیں سروں کے ساتھ ہی جاتی ہیں، مغز سے خالی سر تو اور بھی خطرناک ہوتا ہے جس کا ایک دل دہلا دینے والا ثبوت عدلیہ بارے زبان درازی کی عادت ہے۔

ذہن بنجر، ضمیر مردہ اور زبانیں لمبی جنہیں انجام کی خبر ہی نہیں۔ چند روز پہلے سابق چیئرمین سینیٹ ، ملک کے ممتاز ترین قانون دان وسیم سجاد جان اور سابق ہائی کمشنر شاہد ملک دلجوئی کے لئے تشریف لائے کہ دونوں ہی ٹین ایج سے ابتک بڑے بھائیوں سے بڑھ کر ہیں۔

باتوں باتوں میں وسیم بھائی نے بتایا بلکہ سمجھایا کہ’’توہین عدالت کبھی پرانی نہیں ہوتی، اگر کوئی آج توہین عدالت کا مرتکب ہورہا ہے تو دس بیس سال بعد بھی آج کی فوٹیج دکھا کر اس سے حساب لیا جاسکتا ہے‘‘۔ اگلے روز’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں وسیم بھائی کے اس سنسنی خیز انکشاف کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے اپنے ساتھی بیرسٹر بابر ستار سے پوچھا کہ مجھے سمجھنے میں غلطی تو نہیں ہوئی۔ بابر ستار نے کہا’’نہیں‘‘ یہ ہے عقل اور اوقات صف اول کے سیاستدانوں کی جن کے بارے شہباز شریف کا خیال ہے کہ انہیں عدلیہ اور افواج کے ساتھ مل کر چلنا چاہئے۔شہباز شریف نے بات تو ٹھیک کی ہے لیکن سیاستدانوں کو لگام کون دے گا کہ وہ تو بھائی جان اور بھتیجی جان کے پاس اپنا بیانیہ بیچنے کے قابل بھی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے