دیانت اور بددیانتی موروثی ہوتی ہیں!

ارشد میرا دوست تھا پھر وہ میرا استاد بن گیا اور استاد ہونے کی وجہ سے میری نظروں میں اس کا درجہ والد جیسا ہو گیا اور پھر میں نے ایک ہونہار شاگرد بلکہ سعادت مند اولاد کی طرح اس کی ہر بات کو اپنے لئے حکم جاننا شروع کر دیا۔

ارشد کے دوست سے استاد بننے کا مرحلہ چند منٹوں میں طے ہوا تھا میں نے ایک دن اس سے کہا ’’میں معمولی وکیل ہوں، ترقی کرنا چاہتا ہوں کیا کروں ؟‘‘اس نے جواب دیا ’’ترقی کرنا کون سا مشکل کام ہے میری شاگردی اختیار کرو، دنوں میں ترقی کی منزلیں طے کر لو گے‘‘ چنانچہ میں اس کا شاگرد بن گیا میں ایک دن اس کے سامنے دو زانو مودب بیٹھا تھا میں نے عاجزی سے گڑگڑاتے ہوئے کہا ’’یااستاد! گھر میں افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کیا کروں؟‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا تمہارے پاس کوئی کلائنٹ نہیں ہے ؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ایک نہیں کتنے ہی ہیں مگر میں ان کا کیس نہیں لیتا ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا ’’وہ کیوں ؟‘‘ میں نے اسے بتایا ’’یہ سب بے ایمان لوگ ہیں کسی نے کسی کے پلاٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے ،کوئی قاتل ہے، کوئی کسی کی بہن کو اغوا کرکے بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ چکا ہے اور کوئی جعلی ادویات تیار کرنے کے الزام میں اندر ہے ‘‘ ارشد نے کہا ’’تو پھر کیا ہوا تم نے قانون کی کتابوں میں ان کی رہائی کے لئے راستے نکالنے ہیں، یہ تمہارا پیشہ ہے اور تمہیں اپنے پیشے کے ساتھ آنیسٹ (HONEST)ہونا چاہئے ‘‘ میں نے عرض کیا ’’استاد محترم !پیشے کے ساتھ دیانت دکھاتے دکھاتے میں خدا کی نظروں میں بددیانت ہو جائوں گا‘‘اس نے پوچھا ’’ تم جو خدا کے حقوق ہیں ادا کرتے ہو ؟‘‘میں نے کہا ’’الحمدللہ پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں ، تیس روزے رکھتا ہوں، زکوٰۃ بھی ادا کرتا تھا مگر اب استطاعت نہیں، حج اور عمرہ بھی کیا ہوا ہے ۔‘‘ یہ سن کر ارشد بہت خوش ہوا اور بولا ’’تو پریشانی کس بات کی ہے؟ اسلام میں دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، دین داری تم میں ہے صرف دنیا داری کی کمی ہے یہ کمی دور کرو تمہارے سارے دکھ درد دور ہو جائیں گے‘‘

ارشد کی یہ بات میرے دل کو لگی میں نے سوچا وکالت میرا پیشہ اور نماز میرا فرض ہے ۔چنانچہ مجھے اپنی یہ دونوں ذمہ داریاں بیک وقت نبھانی چاہئیں لہٰذا میں نے ڈاکوئوں، قاتلوں، لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں، قبضہ مافیا اور دوسرے جرائم پیشہ لوگوں کے کیس لینا شروع کئے۔ اہلیت مجھے ورثے میں ملی تھی میرے والد بھی ایک بلند پایہ وکیل تھے مگر وہ زندگی بھر وہ غلطی کرتے رہے جو میں ارشد کی شاگردی میں آنےسے پہلے کرتا تھا یعنی وہ سمجھتے تھے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کمی بیشی تو اللہ تعالیٰ معاف کر سکتے ہیں مگر حقوق العباد میں ہیر پھیر وہ کبھی معاف نہیں کرتے۔ چنانچہ کوئی جرائم پیشہ اگر محض نماز روزے کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے تو وہ دین کو بدنام کرتا ہے اور یوں اس سوچ کی وجہ سے والد کے مالی حالات میری طرح ہمیشہ دگرگوں ہی رہے ۔بہرحال والد کے انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے میں دین کی اس توجیہہ سے باز آ چکا تھا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مجھ پر ہن برسنا شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ میری پیشہ ورانہ مہارت کی بھی دھومیں مچ گئیں ان دنوں میرا رابطہ کچھ ججوں سے ہو گیا تھا وہ کیس کا فیصلہ میرے کلائنٹ کے حق میں کرتے اورمیں ان کا حق خدمت ادا کرتا ۔

تاہم کچھ ہی عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں جو کبھی چاق وچوبند ہوتا تھا اور میری صحت پر یار لوگ رشک کیا کرتے تھے ۔ہر وقت خود کو تھکا تھکا محسوس کرنے لگا اس سے پہلے میں رات کو بستر پر لیٹتے ہی سو جاتا تھا اب مجھے گھنٹوںنیند نہیں آتی اور میں بستر پر کروٹیں لیتا رہتا تھا میں نے اپنے استاد ارشد سے رابطہ کیا اور اسے یہ سب کچھ بتایا استاد میرے والد کے کردار سے واقف تھا چنانچہ اس نے کہا ’’دراصل تمہاری تربیت غلط ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمہارے ضمیر پر بوجھ ہے، تم میرے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہو انشاءاللہ ایک دن تمہارا ضمیر بھی تمہاری نئی سوچ کا عادی ہو جائے گا اور پھر وہ تمہارے لئے مسئلہ نہیں بنے گا‘‘ استاد کی اس بات سےمجھے کافی حوصلہ ہوا چنانچہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتا رہا ۔

اس دوران میری مہارت کی شہرت حکومتی حلقوں تک بھی جا پہنچی تھی چنانچہ وہ دن میری زندگی کا یادگار دن تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ مجھے جج بنا دیاگیا ہے اب دولت کے ساتھ ججی کا اعزاز بھی میرے ساتھ تھا میں نے اس اعزاز کو بھی استاد کے مشورے کے ساتھ اپنی مزید ترقی کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔استاد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اگر کسی کیس میں حکومت کا کوئی انٹرسٹ ہو تو اس کا فیصلہ سنانے سے پہلے اٹارنی جنرل سے مشورہ ضرور کر لینا چنانچہ میں نے اس مشورے کو بھی پلے باندھا اور اس پر عمل کرنے کے عوض کتنے ہی نئے پلاٹ اور کتنی ہی نئی جائیدادیں میری ملکیت بنتی چلی گئیں پھر ایک دن یوں ہوا کہ مشرف کے دور میں ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے لئے کہا گیا انکار کی صورت میں ججی ہاتھ سے جاتی تھی میں نے عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد استخارہ کیا تو خواب میں اشارہ ملا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے میں تمہاری بہتری ہے مجھے ہلکا سا شک ہے کہ خواب میں جو بزرگ مجھے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا کہہ رہے تھے ان کی شکل استاد ارشد سے ملتی تھی ۔ بہرحال میں نے اللہ کا نام لیکر حلف اٹھا لیا جس پر میری وکیل برادری نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔خلق خدا مجھے ملامت کرنے لگی ۔محفلوں میں لوگ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے اور یوں میں نے محسوس کیا کہ شاید میں لوگوں کی نظروں سے گر گیا ہوں ،مگر بے شمار لوگ ایسے بھی تھے جو میرے فیصلے کے حق میں تھے۔

ترقی کی یہ منازل طے کرنے کے دوران بے خوابی کے علاوہ بلڈ پریشر، ہارٹ ٹربل او رشوگر کا مریض بھی بن چکا تھا مجھے اپنا سارا دنیاوی جاہ وجلال بے معنی سا لگنے لگا تھا اس ترقی سے پہلے میرے والد محترم مجھے تقریباً روزانہ خواب میں نظر آتے تھے وہ بہت خوش و خرم دکھائی دیتے تھے مگر پھر وہ نظر آنا بند ہو گئے ۔بہت عرصے بعد ایک مرتبہ دکھائی دیئے مگر ان کاچہرہ بے رونق تھا پہلے وہ مجھے دیکھ کر اپنے گلے لگایا کرتے تھے مگر اس روز وہ میرے قریب سے میری طرف دیکھے بغیر گزر گئے ۔میں اس روز سارا دن بے چین رہا میں نے استاد ارشد سے رابطہ کیا اور اپنے احوال سے آگاہ کرنے کے بعد پوچھا کہ ’’مجھے کیا کرنا چاہئے ؟‘‘میں نے محسوس کیا کہ اس بار استاد کا رویہ میرے ساتھ مشفقانہ نہیں ہے اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں نے تمہیں اپنی شاگردی میں لے کر غلطی کی جس شخص کی گھریلو تربیت ہی غلط ہوئی ہو ، پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں رزق حلال کی اذان دی گئی اور دیانت اور امانت کی مثالیں اپنے عمل سے بھی دی ہوں وہ اگر اپنے آبائو اجداد کے رستے سے ہٹ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار بھی کرے گا تو اس کے نتیجے میں حاصل ہونےوالی ترقی اسے کہیں ہضم نہیں ہوگی۔ دیانت اور بددیانتی اکثرو بیشتر موروثی ہوتی ہیں ۔میں نے تمہیں اپنی شاگردی میں لیکر غلطی کی۔ تمہارا ضمیر ابھی تک تمہارا پیچھا کر رہا ہے تم غربت کی طرف دھکیلنے والے ضمیر کو اپنا استاد بنائو میں تمہیں آج سے آزاد کرتا ہوں !‘‘

افسوس مجھے ناکامیوں کی طرف لے جانے والی یہ کامیابیاں راس نہیں آئیں !اب میں کہیں کا نہیں رہا، نہ واپس جا سکتا ہوں اور ناآگے جانے کے قابل ہوں میں آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ خدا کے لئے اپنے بچوں کو نہ کبھی رزق حلال کھلائو اور نہ ان کے سامنے کبھی ضمیر کی بات کرو۔ اور موقع بے موقع اسے برا بھلا کہتےرہو۔بلکہ کبھی کبھی سب بچوں کے سامنے اس کے کان پکڑو ا دیا کرو ااور کہا کرو کہ ضمیر اس قابل ہے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے