کھوار شاعری کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل

تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کے حامل افراد عام لوگوں سے اس معنی میں بھی مختلف مزاج رکھتے ہیں کہ وہ پامال روایتی پگڈنڈیوں پر چلنے اور چلتے رہنے کے بجائے آگے بڑھنے کے لئے نئے نئے راستوں کی تلاش و جستجو میں رہتے ہیں۔ وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل پر نئی راہوں کا سراغ لگا کر نہ صرف خود ان پر گامزن ہوجاتے ہیں، بلکہ دوسروںکو بھی اپنا تراشیدہ راستہ اپنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ روایت پرستوں اور رجعت پسندوں کی آنکھوں میں ہی نہیں دل و دماغ اور پہلوو ¿ں میں بھی بری طرح کھٹکنے لگتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی رونقیں ایسے ہی لوگوں کی صلاحیتوں کے دم سے ہی مسلسل نمو پذیر ہیں۔ فکر و نظر کے کتنے ہی گوشے ایسے ہیں، جہاں تاریخ میں بے شمار لوگوں نے نئے نئے زاویوں سے انسانیت کو آشنائی دی۔ جانئے کہ یہ لوگ اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے تقلید اور روایت پرستی ہی شعار کرتے رہتے تو آج ہم تہذیب و تمدن کی جس منزل پر کھڑے ہیں، خدا لگتی یہی ہے کہ کبھی اس کی گرد کو بھی نہ پاسکتے اور جیسے آئے تھے، ویسے ہی چقماق رگڑ رگڑ کر Stone Age میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔ آج عالَم، حکیم مشرق علامہ اقبال کے بقول، یہ ہے کہ

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے

کائنات کی موجودات پر انسان کا یہ تفوق، یہ بالادستی، یہ تسخیر، یہ نخچیر، یہ چمک دمک اور یہ دما دم صدائے کن فیکون تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کے حامل انسانوں کی فن کارانہ مہارتوں کا ہی تو اعجاز ہیں۔ کارِ تخلیق کوئی کھیل نہیں ہے۔ پوشیدہ صلاحیتوں کی دریافت اور پھر ان صلاحیتوں کے صحیح اور بروقت استعمال کی جگر کاوی سے ہی تخلیق کی جوئے شیر وجود میں آتی ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا میدان بھی نہیں ہے۔ کوہ سے دریا بہانے اور خشکی پر کشتی چلانے کے لیے جہاں انسانی دماغ میں تخلیقی منصوبے کی نیو اٹھنی چاہئے، وہاں ذہن کے کینوس پر ابھرنے والے خاکے اور نقشے میں عمل کا رنگ بھرنے کے لئے بڑی ہمت بھی درکار ہوتی ہے۔ سو ایک تخلیق کار مکمل انرجیٹک فرد ہوتا ہے۔ ہر با شعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ کوئی بھی عمل اور قدم منصوبہ بندی اور ارادہ و ہمت کے عناصر کے بغیر ظہور میں نہیں آسکتا۔ ان عناصر کا ظہورِ ترتیب ہی کسی خاکہ ¿ عمل کو کالبُدِ حسی بخشتا ہے۔ کوئی بھی تخلیق یا تحقیق سامنے آتی ہے تو اس تفصیل کی روشنی میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ متعلقہ تخلیق کار یا تحقیق کار کے قوائے عمل کی تب و تاب کا کیا عالم ہے!

ہماری خوش نصیبی ہے کہ ”سوشلستان“ پر ایسے ہی ایک انرجیٹک انسان کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہماری شناسائی کی راہ کھلی اور پھر یہ شناسائی محض آن لائن تعارف اور سلام علیک تک محدود نہ رہی۔ آن لائن دوستیاں خوشبو کی لہر کی مانند ہیں کہ جب تک رابطوں کی سہولت موجود ہے، یہ لہر آپ کو مہکائے رکھتی ہے، مگر جوں ہی کوئی ٹیکنیکل فالٹ آڑے آگیا، نیٹ کی سہولت نہ رہی، آئی ڈی بلاک ہوگئی یا دوسرے فریق نے خود کو ڈی ایکٹیو کرلیا تو رابطہ مسدود اور تعلق بھولی بسری کہانی بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ ہم سب کا تجربہ ہے، ہم دیکھتے ہیں کتنے ہی فرینڈز ہماری آن لائن زندگی کا حصہ بنے، مگر اب وہ ہمارے لئے پہلے کی طرح اجنبی ہیں۔ اس انرجیٹک انسان سے آن لائن ربط ضبط قائم ہوا تو شناسائی کا دائرہ مگر پھیلتا چلا گیا۔ بہت جلد ہم سوشل میڈیا کے تعلق کے نا قابل بھروسا دائرے سے نکل کر ریگولر سرکل میں آگئے۔ رابطہ نمبروں کا تبادلہ ہونے کے بعد مشترکہ دلچسپی کے امور کا جب بھی تقاضا ہوا، ہم نے باہم تبادلہ خیال کیا اور یہ سلسلہ ہنوز برقرار ہے۔ گو ملاقات اور زیارت کی سعادت ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔

کچھ کر گزرنے کے جذبے سے بھرپور یہ تخلیق کارہیں ”سوشلستانِ کھوار“ کی معروف و مقبول شخصیت: جناب اقرار الدین خسرو۔ جماعت اسلامی چترال کے ہمارے قابل احترام دوست قاری فدا محمد صاحب مدظلہم، خدا ان کا اقبال ہمیشہ بلند تر رکھے، مولانا قاضی سلامت اللہ، ایک اور نہایت با صلاحیت نوجوان محمد نبی چترالی، برادر ظفر اللہ، جناب شیراز غریب اور برادر عطاءحسین اطہر کی طرح جناب اقرار الدین خسرو سے بھی ربط و ضبط اور تعارف و شناسائی کے جنکشن ہیں۔ قاری صاحب کے طفیل خسرو صاحب سے آشنائی ہوئی تو حقیقت یہ ہے کہ میں ایک عرصے تک انہیں فیشنی ادبی چسکا رکھنے والا ایک عام سا چترالی نوجوان سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا، مگر جب یکے بعد دیگرے ان کی صلاحیتوں کی پرتیں کھل کھل کر سامنے آتی گئیں تو احساس ہوا اس نوجوان میں کچھ ، بلکہ بہت کچھ خاص ہے۔ میرے لیے یہ امر بہت ہی حیران کن تھا کہ چترال کے غیر اردو ماحول میں رہنے والا یہ جوان اردو زبان، ادب اور شاعری سے اس قدر گہرا اور گاڑھا شغف کیسے رکھ سکتا ہے؟

یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ کھوار (چترالی زبان) میں ”شاعری“ کا شوق رکھنے والے نوجوان انگنت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر ناکام عاشق اپنی حسرتوں کا ماتم کرنے کے لئے شاعری میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور بلا مبالغہ ہمارے معاشرے کا ہر تیسرا نوجوان سرگشتہ ¿ خمارِ عشق ہے۔ سو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاعری کے دلدادگان کی شرح کیا ہو سکتی ہے۔ ”شاعری میں پناہ ڈھونڈنے“ کے پورے معنی تو یہ ہیں کہ ایسے لوگ یا تو خود رنگین خیالات کو شعر بند کرکے دل کی تسکین کا سامان کرتے ہیں یا پھر فراز اور وصی شاہ کے رومانی کلام میں کھو کر عالمِ تخیل میں کہیں اور اڑ رہے ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں شاعری سے غم غلط کرنے کے یہی معنی متداول ہیں کہ خود شاعری کے نام پر الفاظ کو آگے پیچھے کرکے آہنگ کے زور پر سوز پیدا کر دیا جائے۔ شاعری کو محض ”کیاغ دی ریکو بشاونو“ (چترالی زبان کی ایک کہاوت) سمجھ کر ٹائم پاس کرنے کے چلن والے ماحول میں اقرار الدین خسرو جیسا باہمت جوان سامنے آئے تو حیرتوں کا جہاں ہی کھل سکتا ہے۔ شاعری کے اپنے قاعدے اور فارمولے ہیں اور ریاضی کی طرح واضح بھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو کلام ان فارمولوں اور مخصوص سانچوں میں فٹ نہیں ہوگا، وہ کچھ اور تو ہوگامگر شعر نہیں ہوگا۔ ماضی قریب کے استاد شاعر محبوب خزاں نے اسی کی طرف اشارہ کرکے کہا ہے کہ

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر

یا تو ہوتا ہے، یا نہیں ہوتا

دو ہی باتیں ہیں۔ تیسری کوئی راہ نہیں۔ آپ کا کلام مقررہ وزن میں ہے تو وہ شاعری ہے، مقررہ وزن میں نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ دیوانے کی بڑ ہے، شعر نہیں۔ مگر اس بات کا شعور ہر کسی کو نہیں ہوتا۔ اقرار الدین خسرو جیسے فن شناس تخلیق کاروں کو ہی اس کی صلاحیت ودیعت ہوتی ہے۔

اقرار الدین خسرو کا ذوق شاعری تو اعلیٰ ہے ہی، مگر ان میں اصل تخلیقی خُو بُو اس سے بھی سوا ہے، جس کا مظہر ان کی کھوار شاعری کے قواعدِ فن پر مشتمل مکمل کتاب ہے۔ کھوار شعری ادب میں اتالیق محمد غریب شکور (م 1772ئ) کو وہی مقام حاصل ہے جو ان کے قریب العہد ولی دکنی (م 1730ئ) کو اردو شاعری میں حاصل ہے۔ اتالیق غریب صاحبِ سیف و قلم تھے۔ کھوار شاعری کے یہ بابا آدم اپنے کلام میں عروض و قواعدِ فن کی رعایت کرتے ہیں، مگر چونکہ اس وقت کھوار شاعری کے الگ سے قواعد موجود نہیں تھے، اس لئے انہوں نے عربی اصولِ شعر ہی پیش نظر رکھے۔ طویل عرصے بعد کھوار شاعری کے تالاب میں اس وقت ارتعاش پیدا ہوا جب کھوار زبان کے معروف صاحب قلم مولانا نقیب اللہ رازی نے کھوار اصول شعر کی تدوین کی طرف اہل ذوق کی توجہ دلائی۔ اس کے بعد وہی الطاف حسین حالی کی ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے دور کی لاطائل بحث چل نکلی کہ شاعری کے لئے قواعد لازمی ہیں یا خیال کی ندرت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ بہرکیف مولانا رازی نے عربی، فارسی اور اردو قواعد شعر میں ماہرانہ ”دست درازی“ کرکے کھوار شاعری کے اصول مدون کئے۔ یہ بڑی علمی اور ادبی خدمت تھی، تاہم چونکہ یہ اوزان و قواعد اپنی اصل میں چونکہ عربی تھے، اس لئے کھوار زبان کے دلدادگانِ سخن کے لئے ان کا تحمل بھاری پتھر اٹھانے کے مترادف ہی رہا۔ اقرار الدین خسرو کا کمالِ فن یہ ہے کہ انہوں نے اس خلا کو پُر کرنے کی مجتہدانہ کاوش کی ہے اور میری نگاہ میں نہایت کامیاب کاوش کی ہے۔

خسرو صاحب عربی نہاد اصولِ شعر سے بھی بے بہرہ نہیں ہیں۔ اس میں انہیں کمال کی دقتِ نظر حاصل ہے۔ اس لئے ان کی اس تحقیقی کاوش کو کسی نا آشنائے فن کا الل ٹپ اٹھایا گیا قدم قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی انسانی کوشش اور حاصلِ محنت مکمل طور پر پرفیکٹ اور حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ اقرار الدین خسرو نے اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتوں اور تحقیقی ذہن کا عرق نچوڑ کر اوریجنل کھوار اصول شاعری کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے اور وہ اسی کے مکلف تھے۔ امید ہے چراغ سے چراغ جلتا جائے گا، اہل ذوق، شوق سے اس کا خیر مقدم کریں گے اور نقادانِ کرام اپنا کام سنبھالیں گے، جس کے نتیجے میں خسرو صاحب کے کام کا وزن بھی سب کے سامنے آئے گا اور اگر اس میں کسی اضافے یا تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی تو اہل فن اس کے تئیں بھی اپنی کاوشیں اہل ذوق کی نذر کریں گے۔

میں اس شاندار تحقیقی کارنامے پر اقرار الدین خسرو بھائی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا کام کھوار شاعری کو ”اپنے اصولوں“ کا مالکانہ سائبان فراہم کرکے مستعار اصولوں کے منت کشِ شانہ بننے سے بے نیاز کردے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے