صادق شیرازی گروپ کے پیچھے کون؟

اختلاف ہر جگہ ممکن ہے، دو سگے بھائی بھی لڑسکتے ہیں، دو دوستوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو سکتا ہے، دو ہمسائیوں کے درمیان بھی کشیدگی ہو سکتی ہے لیکن دو بھائیوں کو لڑوانے والا، دو دوستوں کے درمیان جھگڑا ڈلوانے والا اور دوہمسائیوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والا کبھی بھی کسی ایک کا بھی خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔

گزشتہ دنوں رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کے قریب چیک پوسٹ پر خودکش دھماکہ ہونے سے 5پولیس اہلکاروں سمیت9افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے۔ میڈیا کے مطابق طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے شدت پسندی کا جادو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے، حملہ کرنے والوں سے زیادہ ان کی تربیت کرنے والے اور ان کے سہولتکار خطرناک ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کو شدت پسندوں کی نرسریوں کو مالی گرانٹ دینے کے بجائے، متحد ہوکر ان کا ناطقہ بند کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

مذہبی اجتماعات اور دینی مقدسات پر خود کش حملے کرنا ایک نوعیت کی دہشت گردی ہے اور دوسری طرف سیاستدانوں پر سیاہی اور جوتے پھینکنا ایک دوسری نوعیت کی شدت پسندی اور دہشت گردی ہے ۔ ایسے میں بابائے طالبان کے دینی مدرسے کو عمران خان کی طرف سے مالی گرانٹ کا دیا جانا بھی دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کے ہی زمرے میں آتا ہے۔

اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جس طرح وہابی اور دیوبندی مکتب کے اندر امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے ایجنٹ طالبان ، القاعدہ اور داعش کے نام سے موجود ہیں اسی طرح اہلِ تشیع کے اندر بھی استعماری طاقتوں کے ایجنٹ شیرازی گروہ کے نام سے موجود ہیں ۔

اس وقت اس گروہ کے سرکردہ سربراہ کا نام صادق شیرازی ہے ، اس نیٹ ورک کےمعروف لوگوں میں اللہ یاری اور یاسر الحبیب کے نام آتے ہیں۔ یہ بھی داعش ، القاعدہ اور طالبان کی طرح شدت پسندی کا پرچار کرتے ہیں اور اہلسنت مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔

استعمار کے یہ ایجنٹ کبھی بھی اسرائیل، امریکہ، برطانیہ کے خلاف یا فلسطین اور کشمیر کے حق میں ایک جملہ تک نہیں بولتے بلکہ ہمیشہ اہل سنت مسلمانوں کی جذبات کو مشتعل کرنے، اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان دوریاں پیدا کرنے،صدیوں پرانے اختلافات کو بڑھکانے اور لعن طعن کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

آج جس طرح عالمِ اسلام کے لئے طالبان، القاعدہ اور داعش وبال جان بنے ہوئے ہیں اسی طرح یہ شیرازی گروہ بھی مسلمانوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر کے اغیار کے قدموں میں جھکانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

ان شیرازیوں کے نزدیک زنجیر مار کر خون نکالنا تو واجب ہے لیکن کبھی انہوں نے کشمیر یا فلسطین کے مسئلے پر ایک قطرہ خون نہیں بہایا ، ان کا سارا ہم و غم مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا ہے یہ اہل سنت مسلمانوں کے مقدسات کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن کبھی انہیں مردہ باد امریکہ یا مردہ باد اسرائیل یا مردہ باد برطانیہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ان کے مراکز ہی برطانیہ سے چل رہے ہیں اور ان کے میڈیا نیٹ ورکس کو امریکہ و برطانیہ کی ہی سرپرستی حاصل ہے۔ انہیں اہل سنت مسلمانوں میں تو بہت خامیاں نظر آتی ہیں لیکن امریکہ و برطانیہ میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام شیعہ اور سنی مسلمان مل کر شیرازی گروہ کے خلاف احتجاج کریں اور ان کی سازشوں اور فتنوں سے عالمِ اسلام کو آگاہ کریں۔

صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس وقت اہلِ تشیع کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی صفوں سے استعمار کے جاسوسوں کو الگ کریں ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایران کے شہر قم المقدس میں گزشتہ دنوں اس گروہ کے خلاف ایک حد تک کارروائی کی گئی ہے تاہم یہ بہت بڑا شریر گروہ ہے اس کے مقابلے کے لئے ایران کے علاوہ شیعہ و سنی سے بالاتر ہوکر ہم سب مسلمانوں کو ان شیرازیوں کے خلاف متحد ہوکر اپنی دینی غیرت اور اسلامی طاقت کا اظہار کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کے درمیان تفریق اور فرقہ واریت کو پیدا کرنے والے نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی سنی بلکہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں، لہذا تمام شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ استعمار کے ان ایجنٹوں کو شیعہ یا سنی کہنے کے بجائے استعمار کے جاسوس ہی کہیں اور ان کے خلاف آواز بلند کریں۔

اگر اہلِ تشیع نے اس وقت بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان فسادی افراد کو اپنی صفوں سے الگ نہ کیا تو آنے والے وقتوں میں ان کا شر، داعش اور القاعدہ سے بڑھ کر ہوگا۔

سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہم مسلمان کب تک اسی طرح سادگی سے دشمن کی سازشوں کے شکار ہوتے رہیں گے، ہمیں شیعہ اور سنی کے خول سے نکل کر اسلام کے دفاع کے لئے ہر محاز پر متحد ہونا ہوگا اور ہر اختلاف کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو شخص بھی ایم آئی سکس کی گود میں بیٹھ کر اہل سنت کے اکابرین اور مقدسات کی توہین کرتا ہے وہ کسی طور بھی اہل تشیع کا بھی خیر خواہ نہیں ہے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جولوگ ماضی میں اہل تشیع کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگاتے تھے اب انہوں نے رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کو بھی نہیں بخشا۔ لہذا ہم سب کو شیعہ اور سنی سے بالاتر ہوکر اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچاننا چاہیے۔

اختلاف ہر جگہ ممکن ہے، دو سگے بھائی بھی لڑسکتے ہیں، دو دوستوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو سکتا ہے، دو ہمسائیوں کے درمیان بھی کشیدگی ہو سکتی ہے لیکن منبر پر بیٹھ کر، یا ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یا ویڈیو کلپس کے ذریعے یا فتوے یا کتاب کے ذریعے دو مسلمانوں کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنا یہ سراسر اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف سازش ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے