مودی کے قلعہ میں سیندھ

پچھلے چار سالوں سے بھارت میں جس طرح ہندو قوم پرستوں کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یکے بعد دیگرے کل 29میں سے 22صوبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، لگتا تھا کہ نریندر مودی کی قیادت میں یہ شہ زور گھوڑا 2019کے عام انتخابات میں میدان آسانی سے مار لے گا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مودی کے مضبوط قلعہ کی اینٹیں نکلنے لگیں ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش اور بہار میں لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کی تین نشستوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو ایسی شکست ہوئی کہ دیگر صوبوں میں حال ہی میں حکومت سازی کا اس کا جشن پھیکا پڑ گیا۔ اترپردیش میں ہار کی خاص بات یہ تھی، کہ یہ دونوں نشستیں وزیر اعلیٰ مہنت آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے خالی کی تھیں اور ہندو قوم پرستوں کا گڑھ تصور کی جاتی تھیں۔ گو کہ ان تین سیٹوں کے ادھر ادھر ہونے سے مودی حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ہے، مگر ان کے نتائج 2019کے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔

2019 کے عام انتخابات میں مودی کی کامیابی کی شرح 65فیصد بتائی جاتی تھی جو اب گھٹ کر 50فیصد ہوگئی ہے۔ یعنی تب تک کوئی اور عوامل اگر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں تو یہ کانٹے کی ٹکر ہوگی۔ مگر یہ معجزہ ہوا کیسے؟ اس کی واحد وجہ صوبہ کی اپوزیشن پارٹیوں یعنی سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور دلت فرقہ کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کا انتخابی اتحاد تھا۔ یہ دونوں پارٹیاں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ مگر اس بار دشمنی بھلا کر اور اپنی بقاء کی خاطر دونوں نے ہاتھ ملاکر مسلم۔دلت اور دیگر پس ماندہ ہندو طبقات کے ووٹ کو بکھرنے سے بچا کر بی جے پی کو دھول چٹا دی اور ثابت کر دیا کہ نریندر مودی یا بی جے پی ناقابل شکست نہیں ہے۔

اگر یہ اتحاد قائم رہتا ہے تو شمالی بھارت میں بی جے پی کا بستر گول ہوسکتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے یوپی میں کل 80لوک سبھا سیٹوں میں سے 71اور اس کے حلیفوں نے دو سیٹیں جیت لی تھیں۔ ایس پی اور بی ایس پی کے قریب آنے سے بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کو کم از کم 50سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ افواہیں بھی اب گردش کر رہیں کہ مودی بھی اب اپنی انتخابی نشست بنارس سے 2019کا انتخاب نہیں لڑیں گے ،بلکہ اپنے آبائی صوبہ گجرات کی کسی محفوظ سیٹ سے قسمت آزمائی کریں گے۔

کئی برس قبل معروف ادیبہ ارون دھتی رائے نے بھارت میں بڑھتی فرقہ پرستی اور فسطائیت کا مقابلہ کرنے کیلئے مظلوموں اور محروموں کے اتحاد کا نعرہ دیا تھا۔ مگر اس کا توڑ کرنے کیلئے پاکستان اور مسلمان کا خوف دلا کر بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے انتخابی نشستوں پر 30فیصد ہندوؤں کو یکجا کرنے اور دیگر 70ووٹوں کو تقسیم کرنے کا ایک ایسا فارمولا ایجاد کیا کہ دلت۔مسلم اتحاد کا نعرہ تحلیل ہوگیا۔کانگریس نے بھی ان نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے، مگر اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ چونکہ ان کے امیدوار برہمن تھے، انہوں نے بی جے پی کے ہی ووٹ کاٹ کر ایس پی کی امیدوار کی مشکلیں آسان کر دیں۔ یعنی امیت شاہ کا فارمولہ خود انہیں کے اوپر آزمایا گیا۔

ان نتائج سے حوصلہ پاکر اب 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ایک عظیم الشان محاذ کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی اور دیگر کئی لیڈران اب بی جے پی کے محالفین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی ایک اہم حلیف آندھرا پردیش کی تیلگو دیسم نہ صرف حکومت سے الگ ہوگئی بلکہ لوک سبھا میں اس نے عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی۔ سب سے پرانی حلیف شیو سینا نے اعلان کیا کہ وہ اگلا عام انتخابات بی جے پی کی قیادت میں نہیں لڑے گی۔

اگر بھارت کے ذات پات پر مبنی نظام کا جائزہ لیا جائے، تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندو اعلیٰ ذات یعنی برہمن، چھتریہ(ٹھاکر) اور ویشیہ (یعنی بنیا) کا کل آبادی میں تناسب محض 15فیصد ہے، مگر ان کا تناسب سیاست میں 66فیصد، سروسز میں 87فیصد اور تجارت میں 94فیصد ہے۔ علاو ہ ازیں یہ طبقات 92فیصد زمینوں کے مالکان ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری منڈل کمیشن کی رپورٹ سے حاصل کئے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان اعداد و شمار میں کچھ تبدیلیا ں آئی ہوں، مگر کم و بیش ایسی ہی صورت حا ل ہے۔

2012میں کرائی گئی سماجی مرد م شماری کے نتائج کو موجودہ حکومت نے ازحد خفیہ رکھا ہواہے، جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ محروم طبقوں کی محرومیا ں کم نہیں ہوئیں۔ ملک کی 85 فیصد آبادی جس میں اقلیتیں، دلت اور دیگر پسماندہ ہندو شامل ہیں ، سیاست میں 34فیصد، سروسز میں 13فیصد، تجارت میں6فیصد اور مالکان زمین میں 8فیصد ہیں۔ برہمن آبادی کا محض 3.5فیصد ہے، مگر اعلیٰ سروسز میں ان کی تعداد 62فیصد ہے اور بھارت کا چہرہ ہے۔

ویشیہ یعنی بنیا کا حصہ تجارت میں 60فیصد اور چھتریہ 80فیصد زمینوں کے مالکان ہیں۔ اترپردیش میں ٹھاکر سنیاسی مہنت آدتیہ ناتھ کے وزارت اعلیٰ کی مسند سنبھالنے سے مسلمان اضطراب میں تو تھے ہی، مگر صوبہ میں دلتوں کا قافیہ تنگ ہوچکا تھا۔ کئی علاقوں سے دلتوں اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کی اطلاعات مسلسل موصول ہورہی تھیں۔

پچھلی دو دہائیوں سے دلتوں میں جو بیداری آئی ہے اور جس کے نتیجے میں ان کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کئی بار اس صوبہ میں اقتدار میں بھی آئی ہے، ہندوؤں کا طبقہ اشرافیہ کبھی بھی اس تبدیلی کو ہضم نہیں کر پایا ہے۔ پچھلے 20سالوں سے بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے دور اقتدار میں دلت اور دیگر طبقات نے برابر ی کی کوشش کرکے اعلیٰ ذاتوں کو روحانی اذیت میں مبتلا کرکے رکھا ہوا تھا۔

بھارت کے د یہی اور دور دراز علاقوں کا دورہ کرنے اور ذات پات کے نظام کا مشاہدہ کرنے کے بعد حیر ت ہوتی ہے کہ 800 سال برصغیر پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اسلام کے حقیقی سما جی انصاف کے پیغام کو دیگر مذاہب خصوصاً دلتوں تک آخر کیوں نہیں پہنچا پائے ؟ یہ کہنا بھی بر حق ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد وہاں اگر پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل اور دلتوں کی پذیرائی ہوئی ہوتی، انہیں دیگر ہندووں کے ساتھ ہانکا نہ جاتا تو شاید جنوبی ایشیا کا سیاسی اور سفارتی نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

غیر منقسم ہندوستان میں دبے کچلے طبقات خصوصاً دَلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کو متحد و منظم کرنے کا خواب حسین شہید سہروردی اور دوسرے رہنماؤں نے بہت پہلے دیکھا تھا۔یہ طے ہے، کہ مسلمان صرف اپنے دم پر حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتا، اس لئے بھارت میں مظلوموں کا اتحاد ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔

دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے دنیاکے بڑے مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ ان کا رجحان اسلام قبول کرنے کا تھا مگران کے بڑھتے قدم رک گئے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے اندر چھوٹی بڑی ذاتوں کا سسٹم موجود ہے، اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں مسلم سماج میں بھی برہمن واد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑا تھا جو ان کے لئے پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریر میں کہا: ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر میں اسلام قبول کرتا ہوں تومجھے وہابی کہہ کر خارج از اسلام کردیا جائے گا‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک بار وہ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم اور مصنف سے ملاقات کے لئے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے مرید انہیں غسل خانے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں تولیہ ہے، کسی کے ہاتھ میں تہبند اور بنیان ہے اورکوئی ہاتھ میں صابن اورمسواک لئے ہوئے ہے۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ جس مذہب نے اپنے کام خود کرنے کی تلقین کی ہے، اسی مذہب کے عالم دین کا ہاتھ خالی ہے اوراس کا سارا بوجھ دوسروں کے سر پر ہے۔ جب عالم دین غسل سے فارغ ہوکر ڈاکٹرامبیڈکرکے پاس آئے تو انہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر سنتے رہے۔ جب عالم دین خاموش ہوئے تو امبیڈکر نے کہا کہ ”اسلام کی باتیں تو سو فیصد سچائی اور صداقت پر مبنی ہیں مگر آپ کا سماج اسلام سے دور ہٹا ہوا ہے۔ اگر میں اسلام قبول کرلیتا ہوں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں بھی برہمنواد ہے اور یہاں بھی برہمنواد! ایک برہمن کو چھوڑکر آوٗں گا تو دوسرے برہمن سے مقابلہ درپیش ہوگا‘‘

31 مئی 1936ء کوا مبیڈکر نے ممبئی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جو تحریری تقریر پیش کی، اس میں کہاتھا: ” ہندو دھرم ہمارے آبا و اجداد کا مذہب نہیں ہے۔ وہ تو غلامی ہے جومسلط کردی گئی تھی۔ ہمارا نصب العین آزادی کا حصول ہے اور تبدیلی مذہب کے بغیر آزادی کا حصول ممکن نہیں۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ اچھوتوں کو بھی مساوات کی اتنی ہی ضرورت ہے (جتنی دوسروں کو)۔ مساوات حاصل کرنے کے دو راستے ہیں۔۔۔۔ ایک ہندو سماج میں رہ کر، دوسرا تبدیلی مذہب کے ذریعے اسے چھوڑکر۔ ۔۔جب تک ہندو رہو گے سماجی روابط، کھانے پینے اور مختلف ذاتوں کے درمیان شادی بیاہ کے لئے جد و جہدکرتے رہو گے اور جب تک یہ کشمکش جاری رہے گی، تمہارے اورہندوؤں کے درمیان تعلقات مستقل دشمنوں کے سے ہی رہیں گے۔ تبدیلی مذہب کے ذریعے ان تمام جھگڑوں کی بنیاد بن جائے گی۔ ذاتیں اگرچہ اسلام اور عیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں مگر یہ ان کے سماجی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیت نہیں ہے۔ ہندووءں میں ذات پات کا سسٹم مذہبی بنیادرکھتا ہے، دوسرے مذاہب میں ذات پات کو مذہب کی توثیق حاصل نہیں ہے۔ ہندو اپنے مذہب کو ختم کئے بغیر ذات پات کے سسٹم کوختم نہیں کر سکتے، مسلمانوں اور عیسائیوں کو ذاتیں ختم کرنے کے لئے اپنے مذہب کوختم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا مذہب بہت حد تک ایسی تحریکات کی تائیدکرے گا‘‘۔

خیر ایسا نہیں ہے کہ دلت۔مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات کے اتحاد نے پہلی بار بی جے پی کو دھول چٹائی ہے۔ اس سے قبل دہلی اور بہار کے صوبائی انتخابات میں بھی دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کے عزائم ناکام بنا دیئے۔ مگر قوی امکان ہے کہ اس اتحاد کو توڑنے کیلئے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر ہندو قوم پرست آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کر، پاکستان کا ہوا کھڑا کرکے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو گر م رکھ کر ہندوؤں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے